ہند رجب: ایک ننھی آواز جس نے دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑ دیا

دنیا میں بے شمار سانحے رونما ہوتے ہیں۔ کچھ ایسے ہوتے ہیں جن کی خبر کسی تک نہیں پہنچتی، جہاں قاتل ظلم کے تمام نشان مٹا دیتا ہے۔ لیکن کچھ سانحات ایسے بھی ہوتے ہیں جو پوری دنیا کے سامنے عیاں ہو جاتے ہیں، اور کچھ ظلم ایسے ہوتے ہیں جو خود ظالم کے لیے آخری جرم ثابت ہوتے ہیں۔ اسرائیل ایک طویل عرصے سے فلسطین میں ظلم و جبر کی داستان رقم کر رہا ہے۔ وہاں بسنے والوں کی منظم نسل کشی کی جا رہی ہے۔ اس ظلم میں کسی طبقے سے کوئی تفریق نہیں رکھی گئی؛ مرد، عورت، بچے اور بزرگ سب نشانہ بنے۔ انسان تو انسان، نباتات اور جانور بھی اس درندگی سے محفوظ نہ رہ سکے۔ امدادی کارکنوں، صحافیوں، میڈیا نمائندوں، ڈاکٹروں اور مذہبی مقامات تک پر حملے کیے گئے تاکہ ظلم کا یہ سلسلہ بلا رکاوٹ جاری رہے اور کوئی مظلوم کی مدد نہ کر سکے۔ مگر ایک ننھی بچی، ہند رجب، نے اسرائیل کا چہرہ پوری دنیا کے سامنے بے نقاب کر دیا۔ اس کی درد بھری آواز ایک فلم کے ذریعے دنیا بھر تک پہنچی۔ اس فلم کا ٹریلر عمران خان کی اہلیہ جمائمہ خان نے اپنے اکاؤنٹ سے شیئر کیا، جو مسلسل فلسطین کے لیے آواز بلند کرتی رہی ہیں۔ یہ ٹریلر اس قدر جذباتی اور دل دہلا دینے والا ہے کہ مجھ میں طویل عرصے تک اسے مکمل دیکھنے کی ہمت نہ تھی۔ جیسے ہی ہند کی مدد کے لیے پکار سنائی دیتی، آنسو بے اختیار بہنے لگتے۔ کمزور دل افراد کے لیے یہ ٹریلر ایک نشست میں دیکھنا آسان نہیں۔ یہ فلم “وائس آف ہند رجب” تیونس کی معروف فلم ساز کاوتھر بن ہانیہ کی ہدایت کاری میں بنائی گئی ہے، اور وہی اس کی مصنفہ بھی ہیں۔ اس سے قبل وہ شہرہ آفاق فلمیں ’فور ڈاٹرز‘  اور ’دی مین ہو سولڈ ہز سکن‘ بنا چکی ہیں۔ ان کی فلم فور ڈاٹرز آسکر کے لیے بھی نامزد ہو چکی ہے۔ خاندان کی جانب سے فراہم کی گئی نامعلوم تاریخ کی اس تصویر میں چھ سالہ فلسطینی بچی ہند رجب کو تصویر کے لیے پوز کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ ہند رجب 29 جنوری 2024 کو غزہ شہر سے فرار ہوتے وقت اپنے اہل خانہ کے ساتھ ایک کار میں سوار تھیں جب اسرائیل نے انہیں نشانہ بنایا (اے ایف پی) فلم کی کاسٹ میں ساجا کلانی، موتجاز ملیحس، کلارا کوہورے، عامر ایم ھلعھعل سمیت دیگر اداکار شامل ہیں، جبکہ اس کے پروڈیوسرز میں نادم چیکروہا، اوڈیسا رے اور جیمز ویلسن شامل ہیں۔ پانچ پروڈکشن کمپنیوں نے اس فلم کی عکس بندی میں حصہ لیا۔ فلم کو 82ویں وینس فلم فیسٹول میں نمائش کے لیے پیش کیا گیا، جہاں اسے گرینڈ جیوری پرائز سے نوازا گیا۔ فلم کے اختتام پر شائقین اور جیوری نے 23 منٹ 50 سیکنڈ تک کھڑے ہو کر تالیاں بجائیں، جو اپنے آپ میں ایک ریکارڈ ہے۔ اس فلم کو گولڈن لائن ایوارڈ کے لیے بھی نامزد کیا گیا، اور 98ویں اکیڈمی ایوارڈز میں عالمی فیچر فلم کی کیٹیگری میں بھی نامزدگی حاصل ہوئی۔ کہانی کچھ یوں ہے کہ فلسطین ریڈ کریسنٹ کو ایک ایمرجنسی کال موصول ہوتی ہے۔ فلم میں ہند رجب کی اصل کال استعمال کی گئی ہے۔ ہند صرف چھ سال کی تھی۔ وہ غزہ کی پٹی میں آئی ڈی ایف کی فائرنگ کی زد میں آ گئی تھی۔ خوف سے لرزتی ہوئی اس نے ایمرجنسی نمبر پر کال کر کے کہا کہ وہ بہت ڈری ہوئی ہے اور اسے بچایا جائے۔ وہ بھوکی اور پیاسی اپنے رشتہ داروں کی لاشوں میں دبی ہوئی تھی۔ ہند نے امدادی کارکن سے التجا کی کہ اسے بچانے کے لیے مدد بھیجی جائے۔ ہلال احمر کے ملازمین یہ سن کر ششدر رہ گئے کہ ایک ننھی بچی اس ہولناک صورتحال میں کیسے پھنس گئی ہے۔ ان دنوں جان بوجھ کر ہلال احمر کے عملے کو بھی اسرائیلی فورسز نشانہ بنا رہی تھیں، اس کے باوجود ہند کی مدد کے لیے ایمبولینس روانہ کی گئی۔ ہند اپنے انکل، آنٹی اور تین کزنز کے ساتھ ایک محفوظ مقام کی طرف جا رہی تھی کہ اسرائیلی ٹینک نے ان کی گاڑی پر گولہ باری اور گولیوں کی بوچھاڑ کر دی۔ فون پر ہند کہہ رہی تھی کہ اسے گولیوں اور اندھیرے سے بہت ڈر لگ رہا ہے۔ یہ کال ایک گھنٹے سے زائد جاری رہی۔ وہ روتی رہی، ڈرتی رہی اور مسلسل کہتی رہی کہ اسے وہاں سے نکال لیا جائے۔ جو امدادی کارکن ہند کو بچانے گئے، انہیں بھی اسرائیل نے مار ڈالا۔ ہند کے تمام رشتہ دار فائرنگ میں جان سے گئے اور آخرکار وہ ننھی بچی بھی دم توڑ گئی۔ دس دن بعد امدادی ادارے اس کی لاش تک پہنچ سکے۔ کچھ فاصلے پر انہی امدادی کارکنوں کی لاشیں بھی ملیں جو اسے بچانے گئے تھے۔ اسرائیلی فورسز کے ٹینک نے نہایت قریب سے ہند، اس کے خاندان اور امدادی کارکنوں کو نشانہ بنایا۔ شاید یہ واقعہ بھی دنیا بھول جاتی، لیکن فلم بننے کے بعد ہند رجب کی بے بسی، تکلیف اور اذیت پوری دنیا کے سامنے آ گئی۔ اس کی معصوم آواز، اس کی التجا اور خوف کسی بھی حساس انسان کو رُلا دینے کے لیے کافی ہے۔ ہند اور ہلال احمر کے درمیان یہ کال تقریباً ایک گھنٹہ جاری رہی۔ اس نے بتایا کہ اسرائیلی ٹینک اس کے بہت قریب ہے۔ وہ دھیمے لہجے میں مدد کی درخواست کرتی رہی۔ امدادی کارکن اسے تسلی دیتے رہے۔ ایک موقع پر کارکن نے اسے قرآن کی سورت پڑھنے کو کہا، دونوں نے مل کر سورۃ الفاتحہ پڑھی۔ اس نازک لمحے میں بھی ننھی ہند رجب اللہ کی حمد و ثنا کرتی رہی۔ پھر اچانک کال منقطع ہو گئی، اور یوں امید بھی دم توڑ گئی۔ بعد میں گاڑی سے چھ لاشیں ملیں۔ گاڑی کے چاروں اطراف گولیوں اور گولہ باری کے نشانات تھے۔ اسی سے کچھ فاصلے پر ہلال احمر کی ایمبولینس کھڑی تھی، جس میں یوسف الزاینو اور احمد مدعون کی لاشیں موجود تھیں۔ ہلال احمر ایک امدادی ادارہ ہے، اور اس پر حملہ بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی ہے، مگر اسرائیل کو انسانی قوانین اور اقدار کی کوئی پرواہ نہیں۔ اس سانحے کے بعد ہند کی والدہ واسم حمدہ غم کی مجسم تصویر بن گئیں۔ وہ بار بار قاتلوں اور ان کے سہولت کاروں کو بددعائیں دیتی رہیں۔ وہ پہلے ہی اپنے شوہر کو اسرائیلی دہشت گردی میں کھو چکی تھیں، اور اب ان کی بیٹی بھی ایک محفوظ پناہ گاہ کی تلاش میں مار دی گئی۔ ہند بھوکی تھی، خوفزدہ تھی، لاشوں میں دبی ہوئی تھی، مگر مدد اس تک نہ پہنچ سکی۔ انہوں نے کہا: ’یہاں اندھیرا ہو رہا ہے، مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے، کیا مجھے کوئی لینے آئے گا؟‘، یہ کہتے ہوئے وہ رو پڑیں۔ مزید پڑھ اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field) ممکن ہے اسرائیلی فوجی بھی یہ گفتگو سن رہے ہوں۔ انہیں معلوم تھا کہ گاڑی کے اندر لاشوں کے درمیان ایک بچی زندہ پھنسی ہوئی ہے، پھر بھی اسے نشانہ بنایا گیا۔ اس گاڑی پر 335  گولیاں برسائی گئیں۔ کیا دنیا میں بچے اس ظلم کے مستحق ہیں؟ ہرگز نہیں۔ بچوں کو محبت، شفقت، تعلیم، صاف ستھرا ماحول اور تشدد سے پاک معاشرہ ملنا ان کا بنیادی حق ہے۔ مگر فلسطین کے بچوں کو ان کے تمام حقوق سے محروم کیا جا رہا ہے۔ ان سے جینے کی آزادی چھینی جا رہی ہے، ان کے خواب جنگ کی بھینٹ چڑھائے جا رہے ہیں۔ انہیں صاف پانی، خوراک، کھیل، سکول اور علاج جیسی بنیادی سہولیات میسر نہیں۔ بجلی اور انٹرنیٹ تک ناپید ہیں۔ بمباری کے نتیجے میں معذوری، اپنے ہی وطن سے بے دخلی اور عارضی ہجرت ان کے مقدر بن چکی ہے۔ اس وقت سینکڑوں فلسطینی بچے خیموں میں رہنے پر مجبور ہیں۔ غزہ میں سردی اور بارش ہے، اور بچے اس موسم کی شدت برداشت کرنے سے قاصر ہیں۔ ہند کی آواز اس وقت دنیا نہ سن سکی جب اسے مدد کی سب سے زیادہ ضرورت تھی۔ ہلال احمر اور اس فلم کے ذریعے یہ آواز کئی ماہ بعد دنیا کے سامنے آئی۔ مگر جو بچے آج بھی وہاں زندہ ہیں، جو تحفظ کے لیے پکار رہے ہیں، ان کے لیے دنیا کیوں گونگی اور بہری بنی ہوئی ہے؟ ہند کے وقت بھی دنیا خوابِ غفلت میں تھی، اور آج بھی جب غزہ کے بچے نسل کشی، غذائی قلت، افلاس، خوف اور بیماریوں کا شکار ہیں، دنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ کب تک فلسطینی بچے اندھیروں میں رہیں گے؟ یہ فلم جنوری میں برطانیہ میں عام شائقین کے لیے ریلیز ہوگی۔ شاید یہ کسی تحریک کو جنم دے، شاید اس سے کوئی آواز اٹھے، تاکہ آئندہ کوئی فلسطینی بچہ اس طرح ظلم اور تشدد کا شکار نہ ہو۔ ظلم کے خلاف بولیے، آواز اٹھائیے، تاکہ ظلم کا خاتمہ ممکن ہو سکے۔ غزہ پر اسرائیلی حملہ اسرائیلی جارحیت فلم چھ سالہ ہند رجب کی دل دہلا دینے والی کہانی صرف ایک بچی کا المیہ نہیں بلکہ غزہ میں جاری ظلم و بربریت کی علامت ہے۔ جویریہ صدیق سوموار, دسمبر 15, 2025 - 10:15 Main image:

خاندان کی جانب سے فراہم کی گئی نامعلوم تاریخ کی اس تصویر میں چھ سالہ فلسطینی بچی ہند رجب کو تصویر کے لیے پوز کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ ہند رجب 29 جنوری کو غزہ شہر سے فرار ہوتے وقت اپنے اہل خانہ کے ساتھ ایک کار میں سوار تھیں جب اسرائیل نے انہیں نشانہ بنایا (اے ایف پی)

بلاگ type: news related nodes: غزہ کی چھ سالہ ہند رجب کی موت ہم سب کے لیے شرمناک غزہ کا سرما: بارش نے میرے بچپن کی یادیں دھو ڈالیں غزہ کے بچے جن کے خواب ادھورے رہ گئے ’اسرائیلی ٹینک آ رہے ہیں مجھے بچائیں‘ لاپتہ فلسطینی بچی کی فریاد SEO Title: ہند رجب: ایک ننھی آواز جس نے دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑ دیا copyright: show related homepage: Hide from Homepage