پاکستان کے بارے میں یہ احساس اب کسی ایک طبقے یا فکر تک محدود نہیں رہا کہ یہاں مسئلہ محض افراد کی نیت یا صلاحیت کا نہیں بلکہ پورے نظام کی ساخت اور اس کے اختیار کیے گئے طریقہ کار کا ہے۔ مگر اس بحث میں ایک نہایت بنیادی نکتہ اکثر نظر انداز ہو جاتا ہے کہ پاکستان میں جو بھی نظام آزمایا گیا، وہ اپنی اصل روح اور بنیادی اساس میں کبھی نافذ نہیں ہو سکا۔ جمہوریت آئی تو وہ جمہوری کم اور آمرانہ زیادہ رہی، آمریت مسلط ہوئی تو اس نے خود کو عوامی اور جمہوری ثابت کرنے کی ناکام کوششیں کی اور یوں ریاست ہمیشہ ایک تضاد کا شکار رہی۔ ہم نے ہر راستہ اپنایا مگر کبھی اس راستے پر چلنے کا حوصلہ نہ کیا جو اصل سمت کی طرف لے کر جاتا ہے۔ یہی داخلی تضاد پاکستان کے سیاسی اور سماجی ڈھانچے کی بنیاد میں پیوست ہے۔ جمہوری ادوار میں بھی اقتدار چند ہاتھوں میں مرتکز رہا، فیصلے عوامی نمائندگی کی بجائے طاقت کے مراکز میں ہوتے رہے اور اختلاف رائے کو برداشت کرنے کی بجائے اسے کچلنے کی روایت پروان چڑھی۔ یوں جمہوریت اپنی اصل میں عوام کی حکمرانی کی بجائے محض ایک رسمی عمل بن کر رہ گئی۔ ووٹ ڈالے گئے، حکومتیں بنیں مگر طاقت کے ڈھانچے میں کوئی بنیادی تبدیلی نہ آئی۔ دوسری طرف جب آمریت آئی تو اس نے بھی خود کو عوام دوست اور اصلاح پسند ثابت کرنے کے لیے جہموری لبادہ اوڑھ لیا اور نمائشی اقدامات کیے، مقامی حکومتوں اور مشاورتی اداروں کی بات کی مگر اصل اختیار پھر بھی مرکز میں مرتکز رہا۔ یوں آمریت بھی نمائشی جمہوریت کے ساتھ مل کر اپنی ماہیت تبدیل کر بیٹھی۔ معیشت کے میدان میں بھی یہی تضاد نمایاں ہے۔ پاکستانی معیشت کے تجزیے اور تشخیص کی نوعیت معاشی کم اور سیاسی زیادہ رہی۔ معاشی فیصلے قومی ضرورت، پیداواری صلاحیت یا عوامی فلاح کی بجائے سیاسی مصلحتوں، طاقت کے توازن اور اشرافیائی مفادات کے تابع رہے۔ صنعت، زراعت، تجارت اور ٹیکس جیسے بنیادی شعبے بھی سیاسی جزئیات اور کارپوریٹ فوائد کے گرد گھومتے رہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ معیشت ایک خودمختار اور سائنسی نظم کی بجائے سیاسی اکھاڑہ بن گئی، جہاں دور رس اور طویل المدتی منصوبہ بندی کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ ریاستی مشینری، خاص طور پر سول بیوروکریسی جس کو ترقی اور پیش رفت کا ستون ہونا چاہیے تھا، نوآبادیاتی ورثے سے جڑی ہوئی یہ سوچ فطری طور پر عوامی شمولیت، تخلیقی سوچ اور تبدیلی کے خلاف رہی۔ اس کا بنیادی مقصد عوام کی خدمت کی بجائے نظم و ضبط، حکم کی تعمیل اور طاقت کے مراکز کی حفاظت رہا۔ وقت کے ساتھ یہ مزاج مزید پختہ ہوتا گیا۔ ترقی اور اصلاح کے نام پر فائلوں، قواعد اور پیچیدہ طریقہ کار کا ایسا جال بچھایا گیا جس میں ہر نیا خیال دم توڑ دیتا ہے۔ یوں بیوروکریسی جدید ریاست کی رفتار، خدوخال اور تقاضوں کے ساتھ توازن پیدا کرنے کی بجائے ریاست کو مزید جمود کا شکار کرتی چلی گئی۔ جمہوریت سے وابستگی بھی اسی سطحی رویے کا شکار رہی۔ یہاں جمہوریت کو ایک اخلاقی اور فکری قدر کی بجائے محض ایک طریقہ سمجھا گیا۔ انتخابات ہوئے تو ہم نے سمجھ لیا کہ جمہوریت کی اساس مکمل ہو گئی حالانکہ جمہوریت کا اصل تقاضا شفاف احتساب، طاقت کی تقسیم، اختلاف رائے کا احترام اور قانون کی بالادستی ہے۔ جب یہ عناصر موجود نہ ہوں تو جمہوریت محض ایک خول بن جاتی ہے، جس کے اندر آمریت کی روح سانس لیتی ہے۔ اسی طرح قابلیت اور ٹیکنوکریسی کے نعروں کی بھی بہت تکرار ہوئی، مگر عملی سطح پر سیاسی سرپرستی، سفارش اور ذاتی وابستگی کا نظام اتنا گہرا ہے کہ حقیقی اہلیت کے لیے جگہ ہی نہیں بچتی۔ قومی ادارے قابلیت سے زیادہ قربت اور وفاداری کی بنیاد پر بانٹے گئے اور فیصلہ سازی علم، تجزیہ اور اعداد وشمار کی بجائے خواہشات کے سہارے ہوتی ہے۔ ایسے ماحول میں فنی ماہرین اور اہل افراد یا تو خود کو غیر متعلق محسوس کرتے ہیں یا اسی مردہ نظام کا حصہ بننے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ جب ریاست اپنی بنیادی سمت متعین کرنے میں ناکام ہو جائے تو منزل محض ایک مبہم تصور بن کر رہ جاتی ہے اور سفر بےیقینی کا شکار ہو جاتا ہے۔ فیصلے کسی واضح وژن کی بجائے وقتی دباؤ، مصلحت اور طاقت کے بدلتے توازن کے تحت کیے جاتے ہیں، جس سے پالیسی میں تسلسل پیدا نہیں ہو پاتا۔ یہ تمام مندرجات اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ پاکستان میں مسئلہ کسی ایک نظام اور اس کی حرکیات کا نہیں بلکہ اس طریق فکر کا ہے جس کے تحت نظام اپنائے گئے۔ ہم نے جمہوریت، آمریت، مخلوط حکومتیں اور مختلف معاشی تجربات سب کچھ جزوی طور پر آزما لیا، مگر کبھی ان کی اصل روح کو قبول نہ کیا۔ ہم نے ہر تصور کو اپنی سہولت اور مفاد کے مطابق ڈھالا اور پھر اس کی ناکامی کا الزام اسی تصور پر ڈال دیا۔ مزید پڑھ اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field) دنیا کی تاریخ ہمیں ایک نہایت سادہ مگر اہم سبق دیتی ہے کہ جن ممالک نے ترقی کی، ان کے بنیادی اصول کم و بیش ایک جیسے رہے۔ قانون کی بالادستی، پیشہ ورانہ دیانت، مہارت پر مبنی نظم و نسق، اداروں کی خودمختاری اور عوامی مفاد کو مرکزیت دینا۔ یہ اصول مشرق ہوں یا مغرب، شمال ہوں یا جنوب، ہر جگہ مشترک ہیں۔ ان ممالک نے ترقی کا پیمانہ نئے سرے سے ایجاد نہیں کیا بلکہ آزمودہ اصولوں کو اپنی ضروریات کے مطابق ڈھالا۔ پاکستان کے لیے بھی آگے بڑھنے کا راستہ کسی انوکھے یا نئے تجربے میں نہیں بلکہ اسی حقیقت کو تسلیم کرنے میں ہے کہ ترقی کے بنیادی اصول آفاقی ہوتے ہیں۔ ہمیں پیشہ ورانہ مہارت، عملی عقل اور ہنر پر مبنی نظم و نسق کو اپنانا ہو گا اور اپنی پالیسیوں کو زمینی حقائق اور مقامی مسائل کے مطابق ترتیب دینا ہو گا۔ اس کے ساتھ ساتھ نوآبادیاتی ریاست کے اس بنیادی تصور سے فاصلہ پیدا کرنا ہوگا جو عوام کو رعایا اور ریاست کو حاکم سمجھتا ہے۔ جب تک ریاست خود کو عوام کی خدمت گزار نہیں سمجھے گی، کوئی بھی اصلاح بارآور نہیں ہو سکتی۔ تعمیری تبدیلی اسی وقت ممکن ہے جب ہم یہ مان لیں کہ اصل مسئلہ نیت سے زیادہ نظام کی بنیادی اساس کا ہے۔ جب ہم نظام کی روح کو بدلے بغیر اس کے نام بدلتے رہیں گے تو نتیجہ بھی وہی رہے گا جو آج ہے اور دائروں کا سفر جاری رہے گا۔ اگر ہم بنیادی اصولوں کی طرف لوٹنے کا حوصلہ کریں، پیشہ ورانہ دیانت، مہارت اور انصاف کو محض الفاظ نہیں بلکہ عملی، فکری اور تخلیقی معیار بنائیں اور نوآبادیاتی ورثے سے ایک واضح علیحدگی اختیار کریں تو یہی پہلا قدم ہو سکتا ہے اس سفر کا جو پاکستان کو جمود سے نکال کر ترقی کی سمت لے جائے گا۔ نوٹ: یہ تحریر لکھاری کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ (ڈاکٹر راجہ قیصر احمد قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے سکول آف پالیٹیکس اینڈ انٹرنیشنل ریلیشنز میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں) جمہوریت سیاست عوام ہم نے جمہوریت، آمریت، مخلوط حکومتیں اور مختلف معاشی تجربات سب کچھ جزوی طور پر آزما لیا، مگر کبھی ان کی اصل روح کو قبول نہ کیا۔ ڈاکٹر راجہ قیصر احمد منگل, دسمبر 16, 2025 - 06:15 Main image:
10 مئی، 2013 کی اس تصویر میں ایک برف فروش اپنی سائیکل پر بیٹھا گاہکوں کا انتظار کر رہا ہے، پس منظر میں لاہور کے قدیم شہر کی ایک گلی میں سیاسی نعروں والے پوسٹروں سے بھری دیوار نظر آ رہی ہے (اے ایف پی)
زاویہ type: news related nodes: ایک واقعہ، پوری ریاست ناکام: کیا ہم ’منفی نفسیات‘ کے قیدی ہیں؟ نیا سماجی معاہدہ ناگزیر ہو چکا ہے نفرت کی سیاست کیسے شروع ہوئی؟ پاکستان میں سیاست ہی زیرِ بحث موضوع کیوں؟ SEO Title: کیا پاکستان میں مثبت تبدیلی ممکن ہے؟ copyright: show related homepage: Hide from Homepage