بالی وڈ میں بہت سے ’دادا گورے‘ گزرے جن کا آج نام تک کوئی نہیں جانتا۔ یہ اپنے وقت کے بھنسالی تھے یا کرن جوہر۔ بالی وڈ کے سمندر میں چھوٹے چھوٹے جزیرے جہاں منٹو جیسے بیڑے لنگر انداز ہوتے رہے، اب خود غرق ہو چکے ہیں۔ دادا گورے کون تھے، منٹو سے جانتے ہیں۔ بمبئی میں اپنی پہلی سٹوڈیو ملازمت کا ذکر کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں: ’اس وقت میں 40 روپے ماہوار پر ایک فلم کمپنی میں ملازم تھا اور میری زندگی بڑے ہموار طریقے سے افتاں و خیزاں گزر رہی تھی۔ چالو فلم کے لیے چالو قسم کے مکالمے لکھے۔ بنگالی ایکٹریس سے، جو اس زمانے میں بلبلِ بنگال کہلاتی تھی، تھوڑی دیر مذاق کیا اور دادا گورے کی، جو اس عہد کا سب سے بڑا فلم ڈائریکٹر تھا، تھوڑی سی خوشامد کی اور گھر چلے آئے۔‘ یہ بڑے بڑے ڈائریکٹر اور ان کی فلمیں اپنے وقتوں میں دھوم مچاتی رہیں، ان پر ناقدین نے مضامین لکھے، ان کے مکالمے سماجی گفتگو کا حصہ بنے، انہوں نے فلمی زبان کو بدل کر رکھ دیا اور پھر ایک دن اچانک غائب ہو گئیں۔ نہ نیگیٹو بچا، نہ پرنٹ، نہ بیک اپ۔ صرف کچھ پوسٹر، چند پیلے اخباروں کے تراشے، اور ان لوگوں کی یادیں جنہوں نے کبھی یہ فلمیں دیکھی تھیں۔ اندازہ کریں انڈیا میں 1960 سے پہلے بننے والی تقریباً 70 فیصد فلمیں ہمیشہ کے لیے وقت کے سمندر میں غرق ہو چکی ہیں۔ ایسی بڑی تباہی کا نقطہ عروج فلمستان سٹوڈیو میں آگ کا رقص وحشت تھا جب دیکھتے ہی دیکھتے فلمی تاریخ کا بڑا خزانہ دھواں بن کر آسمان میں اڑ گیا۔ مارچ 1958 کی ایک رات ممبئی کا آسمان کالے دھوئیں سے مزید سیاہ ہونے لگا۔ مشہور فلمستان سٹوڈیو کے سٹوریج روم میں آگ بھڑک اٹھی تھی۔ وہاں ہزاروں نیگیٹو ایسے اوپر نیچے رکھے تھے، جیسے یادوں کے مینار ہوں۔ بس چند گھنٹے کے اندر یہ مینار راکھ ہو کر بکھر چکا تھا۔ انہی میں 1931 کی ایک فلم تھی ’دلیر جگر‘، کہنے والے کہتے ہیں ی خاموش دور کی ’شعلے‘ تھی، ایکشن اور تھرل کا اپنے وقتوں میں انتہائی عمدہ امتزاج۔ ماسٹر وِتھل کے خطرناک سٹنٹس نے لوگوں کو دیوانہ بنا دیا تھا۔ آج اس فلم کا ایک فریم بھی موجود نہیں۔ آگ کیوں لگی، یہ آج تک کوئی نہیں جانتا۔ بعض کے نزدیک شارٹ سرکٹ ہوا، ایک خیال ہے آگ کسی اور مقصد کے لیے لگائی گئی، وہ مقصد ہم نہیں جانتے بس اتنا بتا دیں کہ ساتھ والے کمرے میں مالیاتی ریکارڈ رکھا تھا، وہ بھی جل گیا۔ یہ پہلی یا آخری آگ نہیں تھی۔ ایک شخص 20 اکتوبر 2016 کو راولپنڈی میں ڈی وی ڈی کی دکان میں بالی وڈ فلموں کے پوسٹرز کے سامنے کھڑا ہے (روئٹرز) سالوں بعد نیشنل فلم آرکائیو آف انڈیا (این ایف اے آئی)میں بھی ایک آگ نے کئی کلاسیکی فلموں کو راکھ میں بدل دیا۔ کہا جاتا ہے کہ کچھ نیگیٹو درجۂ حرارت بڑھنے کی وجہ سے اندر ہی اندر گل سڑ گئے اور جب تک کسی کو پتا چلا، سب ختم ہو چکا تھا۔ فلموں کا ایک بڑا خزانہ ہزاروں پرستاروں کو مسحور کرنے کے بعد گم ہوا، بعض بن کھلے ہی مرجھا گئیں۔ 1940 کی دہائی کا ایک بہت مشہور قصہ ہے۔ اس دور کے بڑے پروڈیوسر کیکو بھائی دیسائی (من موہن دیسائی کے والد) نے ’میریج مارکیٹ‘ نامہ فلم بنائی تھی۔ یہ معاشرتی طنز پر مبنی فلم تھی، جس میں جہیز کے رواج پر کھل کر تنقید کی گئی تھی۔ 1940 کی دہائی میں یہ فلم اپنے وقت سے کتنا آگے چل رہی تھی۔ لیکن فلم ریلیز ہونے سے پہلے ہی اس کا نیگیٹو چوری ہو گیا۔ آج تک پتہ نہ چلا کہ وہ نیگیٹو کہاں گیا، سرمایہ اور امیدیں ایک ساتھ ڈوب گئے۔ کچھ کا خیال تھا کہ یہ کسی مقابل اسٹوڈیو نے چرایا۔ حکمران جماعت بی جے پی کی رکن پارلیمان کنگنا رناوت اس فلم کی ہدایت کاراور پروڈیوسر ہیں، جو سابق وزیراعظم اندرا گاندھی کا کردار نبھا رہی ہیں (فلم پوسٹر) 1970 کی دہائی میں کسی نے دعویٰ کیا کہ اس نے ’میریج مارکیٹ‘ کی ادھ جلی ریل ممبئی کے بائیکلہ علاقے کے ایک کباڑی کے پاس دیکھی ہے۔ جب ایک فلم مورخ وہاں پہنچا تو کباڑی نے بتایا کہ ریل تو وہ پہلے ہی آگے بیچ چکا ہے۔ مورخ اس مٹھائی والے کے پاس پہنچا جو پرانی فلمیں لٹکا کر اپنی دکان کی شوبھا بڑھاتا تھا۔ اس نے کہا وہ تو آدھی جلی ہوئی تھی، میں نے آگ میں ڈال کر رس گلے کا شیرہ تیار کرنے میں استعمال کر دی۔ ہندوستانی سنیما کے ابتدائی زمانے میں خواتین نے حیران کن کام کیا۔ 1920 کی دہائی کی ہدایت کارہ فاطمہ بیگم نے فینٹسی فلمیں بنائیں جن میں اُڑتے قالین، جادوئی مناظر اور ہاتھ سے بنائی گئی سپیشل ایفیکٹس شامل تھے۔ اُن کی مشہور ترین فلم ’بلبلِ پریستاں‘ تھی جس نے 1926 میں دھوم مچا دی۔ کوئی نہیں جانتا اس فلم کا پرنٹ کہاں گیا۔ محض چند تصویریں اور ایک آدھ مضمون رہ گیا ہے جو اس فلم کے جادو کی داستان سناتا ہے۔ انڈیا کی پہلی صوتی فلم ’عالم آرا‘ بنانے والے اردشیر ایرانی کی 150 سے زیادہ فلمیں تھیں، چند ایک کے سوا آج کچھ نہیں ملتا۔ مشہور ہے کہ ان کا سٹوڈیو 1950 کی دہائی میں پرانے نیگیٹو وزن کے حساب سے بیچتے رہے۔ ’عالم آرا‘ کا نام سب جانتے ہیں، مگر جنہوں نے تب دیکھ لی بس انہوں نے ہی دیکھی۔ شیام بینیگل کو ’زبیدہ‘ (2001) جیسی کلاسیک فلموں کے لیے یاد کیا جاتا ہے (وکی پیڈیا کامنز) یہ فلم 1930 یا 1940 کی دہائی میں نہیں بلکہ 2003 میں غائب ہوئی۔ این ایف اے آئی کے پاس اس کا پرنٹ موجود تھا۔ لیکن جب اسے ری سٹور کرنے کے لیے کھولا گیا تو اندر صرف دھول تھی۔ اس پر میڈیا سے بات کرتے ہوئے ایک ملازم نے بتایا تھا کہ ’یہ ایسے تھا جیسے کسی تابوت کو کھولو، اندر پڑی لاش گل سڑ چکی ہو۔‘ آج ہندوستان کی پہلی صوتی فلم کا ایک سیکنڈ بھی موجود نہیں۔ کر دیتے ہو جو اب راکھ جستجو کیا ہے۔ ایک سر پھرے کا قصہ یاد آ رہا ہے اور یہ قصہ کسی فلمی رومان سے کم نہیں۔ مزید پڑھ اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field) 1950 کی دہائی میں ایک چھوٹے شہر کے جنونی لڑکے کو اداکارہ نالنی جے ونت سے یک طرفہ عشق ہو گیا۔ جب اسے پتہ چلا کہ نالنی کی ایک پرانی فلم ’نوجوان دل رُبا‘ کسی کباڑیے کے پاس پڑی ہے تو وہ پہنچا اور اپنی شرٹ کے اندر پوری ریل چھپا کر چپکے سے گھر لے آیا۔ سالوں تک وہ فلم اس کے بستر کے نیچے پڑی رہی۔ وہ اسے ہر اتوار ناریل کے تیل سے صاف کرتا۔ 1990 کی دہائی میں اس کے مرنے کے بعد اس کے پوتے نے ایک آن لائن فورم پر ’پرانے دھول بھرے فلمی ڈبے‘ کا ذکر کیا۔ ایک کلیکٹر گھر پہنچا اور لکڑی کے بکسے میں گم شدہ فلم دیکھ کر دنگ رہ گیا۔ یوں ایک فلم محفوظ ہو گئی۔ سٹوڈیوز کے پاس پرانی فلموں رکھنے کے لیے مناسب ٹمپریچر والے کمرے تھے نہ کوئی ٹیکنالوجی، اوپر سے نیگیٹو وزن کے حساب سے فروخت ہوتے تھے جنہیں نچلا عملہ چپکے سے پار کر دیتا۔ بے شمار فلمیں اپنے پوسٹرز، گانوں یا اخباری تراشوں میں زندہ ہیں، جن دلوں میں انہوں نے طوفان برپا کیے تھے ان کی دھڑکن پہلے ہی خاموش ہو چکی۔ ان پہ آنسو بہانے والا کوئی نہیں۔ بالی وڈ انڈین فلم انڈسٹری کہانیاں اداکار کچھ گمنام فلموں کے نہ نیگیٹو بچا، نہ پرنٹ، نہ بیک اپ۔ صرف کچھ پوسٹر، چند پیلے اخباروں کے تراشے، اور ان لوگوں کی یادیں جنہوں نے کبھی یہ فلمیں دیکھی تھیں۔ فاروق اعظم بدھ, دسمبر 17, 2025 - 07:00 Main image:
ایک مصور تین جولائی 2001 کو چنئی کے ایک سٹوڈیو میں بالی وڈ کی ایک فلم کی بڑے ہورڈنگ کی پینٹنگ کو آخری شکل دے رہا ہے (اے ایف پی)
فلم type: news related nodes: دھرمیندر: بالی وڈ اور ہیما مالنی کا دل فتح کرنے والا پنجابی نوجوان ہیرو، ولن یا عام آدمی: بالی وڈ کرداروں کی بدلتی دنیا بالی وڈ میں خاندانی سلطنت سنبھالتے ’سٹار کڈز‘ انڈیا: 60 ارب ڈالر کی بالی وڈ صنعت کو مشکلات کا سامنا کیوں؟ SEO Title: بالی وڈ کی گمشدہ فلمیں: آگ، سازش اور وزن کے بھاؤ فروخت ہونے والی ریلیں copyright: show related homepage: Hide from Homepage