ملبوسات کے ذریعے پاکستانی ثقافت کو محفوظ کرنے والا کراچی کا جوڑا

کراچی کے ایک جوڑے نے پاکستان کے ثقافتی ورثے کو محفوظ کرنے کے لیے ’حویلی‘ نامی عجائب گھر قائم کر رکھا ہے، جہاں ملبوسات اور کشیدہ کاری کی صورت میں پاکستان کی تہذیب کو محفوظ کیا گیا ہے۔ حسن عسکری اور ان کی اہلیہ نسرین عسکری کی اس حویلی میں منگل (نو دسمبر) کو ’فلک سیر‘ نامی نمائش کا آغاز ہوا، جس میں خیبر پختونخوا کی صدیوں پرانی ملبوسات کی روایت کو پہلی بار اس سطح پر پیش کیا گیا۔ میوزیم میں داخل ہوتے ہی اندازہ ہوا کہ یہ کوئی سادہ نمائش نہیں۔ یہاں رکھا گیا ہر لباس، ہر  دھاگہ اور ہر رنگ ایسی کہانی سناتا ہے، جو لفظوں میں شاید کبھی محفوظ نہ ہو سکتی۔ 80 سے زائد نوادرات اور سو سال سے بھی پرانی پوشاکیں، چترال سے وزیرستان تک پھیلے خطے کا مکمل ثقافتی نقشہ سامنے لے آتی ہیں۔ ان میں وہ نوادرات بھی شامل ہیں جو افغانستان کی سرحدی پٹی اور کوہستان جیسے دور افتادہ علاقوں سے پہلی بار عوام کے سامنے لائے گئے ہیں۔ نسرین عسکری بتاتی ہیں کہ انہوں نے اپنی زندگی کے 40 سال اس ورثے کی تلاش، تحقیق اور حفاظت پر لگا دیے۔ ان کا کہنا تھا کہ عام طور پر لوگ شادی کے بعد گھریلو مصر وفیات میں کھو جاتے ہیں، مگر ان کے لیے پاکستان کی ثقافت کو سمجھنا اور اسے محفوظ کرنا ہی انوکھا شوق بن گیا۔ نمائش میں رکھا گیا ہر جوڑا الگ ثقافتی کہانی بیان کرتا ہے (صالحہ فیروز خان/ انڈپینڈٹ اردو) وہ مختلف علاقوں کا سفر کرتی رہیں، لوگوں سے ملیں، ان کی روایات کو سنا اور پھر ان لباسوں کو جمع کیا، جو اب قصے کہانیوں میں بھی کم ہی سنائی دیتے ہیں۔ اسی لگن نے انہیں خیبر پختونخوا کی ٹیکسٹائل کو نہ صرف سمجھنے میں مدد دی بلکہ اس کی اصلیت کو بھی محفوظ رکھا۔ نمائش میں رکھے گئے فن ہاروں میں مردانہ روایتی پگڑی بھی ایک اہم حصہ ہے۔ اس میں سوتی دھاگے کے ساتھ باریک سنہری سونے کا دھاگہ پرویا جاتا ہے۔ یہ پگڑی دلہا اپنی شادی کے روز پہن کر نہ صرف اپنی روایت کا احترام کرتا ہے بلکہ اس کی تہذیبی شناخت بھی نمایاں ہو جاتی ہے۔ چترال کی وادی کالاش کی خواتین کی ٹوپی، انیسویں صدی کے آخر کی منفرد سوغات ہے، جو استقبال اور خاص تقریبات میں پہنی جاتی ہے۔ مزید پڑھ اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field) ہزارہ کے تکیے کے غلاف اپنی گھنی کڑھائی کی بنا پر ایسے لگتے ہیں جیسے کپڑا پس منظر میں کہیں گم ہو گیا ہو۔ دربند، مانسہرہ کی انیسویں صدی کی خواتین کی نایاب کڑھائی کی مثال ہے، جس میں سوات کی نفاست، پھلکاری کی جھلک اور بیس سے زائد پینلوں میں چھپے روایتی نمونے ایک ساتھ ملتے ہیں۔ نسرین عسکری بتاتی ہیں کہ اگرچہ نمائش میں رکھی ہر شے اپنی جگہ ایک مکمل داستان ہے، لیکن پشتونوں کی روایتی فراک خاص طور پر دل موہ لینے والی ہے۔ یہ فراک نہ صرف خالص ریشم سے تیار کی جاتی ہے بلکہ اس پر کی گئی نفیس کڑھائی رنگوں کی ہم آہنگی، باریک ٹانکے اور شاندار تہذیبی اظہار اس لباس کو ایک ایسی شناخت دیتے ہیں جو وقت گزرنے کے باوجود زندہ محسوس ہوتی ہے۔ انہوں نے نمائش پر مزید گفتگو کرتے ہوئے بتایا: ’انڈس کوہستان کے پہناوے کی بات کی جائے تو وہ اپنی نایابی اور نزاکت کے باعث پاکستان میں منفرد مقام رکھتے ہیں۔‘ اسی طرح نمائش میں موجود بنگش خاندان کا پرانے زمانے کا تہواروں والا لباس، چاندی کی ترچھی پٹیوں، سکوں اور موتیوں سے مزین وادی کوہستان کا ’جملو‘ لباس اپنی آرائش، شیل، موتیوں اور دھات کے بٹنوں کے ذریعے ایک مکمل کہانی اور اس خطے کی محنت اور باریکی کو ظاہر کرتا ہے۔ نمائش میں رکھے گئے خیبرپختونخوا کے مختلف علاقوں کے ثقافتی ملبوسات اور دیگر اشیا (صالحہ فیروز خان/ انڈپینڈنٹ اردو) صدی پرانے ’جملو‘ فراک میں تین سو کے قریب باریک کلیاں شامل ہوتی ہیں، جو ہاتھ کی محنت اور باریکی کا ایسا ثبوت ہیں جو ملک کے کسی اور حصے میں دیکھنے کو نہیں ملتا۔ بقول نسرین: ’یہی وجہ ہے کہ انڈس کوہستان کا یہ پہناوا نہ صرف نادر ہے بلکہ زندہ تاریخ کی حیثیت رکھتا ہے۔‘ حسن عسکری نے ہمیشہ اپنی اہلیہ کے شوق کا بھرپور ساتھ دیا۔ وہ کہتے ہیں: ’یہ عجائب گھر صرف ٹیکسٹائل کے لیے ہے اور میری خواہش ہے کہ ہمارا مجموعہ ایسا ہو کہ دنیا بھر کے لوگ اسے دیکھ کر حیران رہ جائیں۔ ’اس سے قبل سندھ کی ٹیکسٹائل نمائش ہوئی تھی اور ہم نے کوشش کی کہ سندھ کی وزیر ثقافت کو بطور مہمانِ خصوصی مدعو کریں، لیکن وہ اب اپنے کاموں میں مصروف ہیں، مگر ہمیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، ہمارا مقصد اپنے ورثے کو محفوظ کرنا ہے، بس وہی ہمارے لیے کافی ہے۔‘ اس ساری نمائش کے پیچھے عسکری خاندان کا مقصد ایک ہی تھا کہ خیبر پختونخوا کی وہ چادریں، قبائیں، کرتیاں، ٹوپیاں اور تکیے جو کبھی روزمرہ کا حصہ تھے، آئندہ نسلوں کے لیے بطور زندہ تاریخ محفوظ رہ سکیں تاکہ آنے والے لوگ صرف کتابوں سے نہیں بلکہ اصلی پوشاکوں سے جان سکیں کہ اس خطے کا طرزِ زندگی کیسا تھا، اس کے رنگ کون سے تھے اور اس کے لوگوں نے کپڑے کو اظہارِ ثقافت کے طور پر کیسے استعمال کیا۔ نسرین اور حسن عسکری مستقبل میں دیگر صوبوں کی ٹیکسٹائل کو نمائش میں پیش کرنے کے لیے بھی پرعزم ہیں۔ کراچی ملبوسات نمائش ٹیکسٹائل خیبر پختونخوا حسن عسکری اور ان کی اہلیہ نسرین عسکری کی اس حویلی میں منگل (نو دسمبر) کو ’فلک سیر‘ نامی نمائش کا آغاز ہوا، جس میں خیبر پختونخوا کی صدیوں پرانی ملبوسات کی روایت کو پہلی بار اس سطح پر پیش کیا گیا۔ صالحہ فیروز خان بدھ, دسمبر 17, 2025 - 08:00 Main image:

نسرین عسکری نمائش میں رکھے ایک لباس کی تفصیلات بتاتے ہوئے (صالحہ فیروز خان/ انڈپینڈنٹ اردو)

فن jw id: BSwcjo5f type: video related nodes: پشاور جیل کے قیدیوں کے ہاتھوں تیار ہونے والے عروسی ملبوسات پشاور کی ماریہ جو آن لائن افغان ملبوسات بیچ کر لاکھوں کماتی ہیں نخلستان فیشن شو: موسمِ گرما کے ملبوسات میں جدت کا امتزاج انڈین حیدرآباد کی خواتین میں پاکستانی ملبوسات مقبول SEO Title: ملبوسات کے ذریعے پاکستانی ثقافت کو محفوظ کرنے والا کراچی کا جوڑا copyright: show related homepage: Show on Homepage