گذشتہ ہفتے افغان علما کی جانب سے قومی سطح پر جاری ایک فتوے میں واضح کیا گیا کہ افغان سرزمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف حملوں کے لیے استعمال نہیں کیا جائے گا۔ اس پیش رفت سے کابل اور اسلام آباد کے درمیان کشیدگی میں کچھ کمی آ سکتی ہے تاہم اس کے مکمل خاتمے کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ رواں ہفتے ہی علما کے ایک الگ اجتماع میں افغانستان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی نے اعلان کیا کہ اس حکم کی خلاف ورزی کرنے والے کسی بھی گروہ یا فرد کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ پیچیدہ سماجی اور سیاسی ماحول میں یہ غیر معمولی بات نہیں کہ وزرا اپنے دائرہ اختیار سے ہٹ کر بیانات دیں، تاہم امیر خان متقی کا یہ اعلان کہ افغان سرزمین کو عسکریت پسندانہ سرگرمیوں کے لیے استعمال نہیں ہونے دیا جائے گا، خاص اہمیت رکھتا ہے۔ سراج الدین حقانی کے بطور وزیر داخلہ کردار اور ان کا امریکہ کی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل ہونا اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ طالبان شاید امریکہ کو ناراض کرنے سے گریز کرنا چاہتے ہیں۔ طالبان کی جنگی صلاحیت اور مزاحمتی جذبہ حکمرانی میں آسانی سے ڈھل نہیں پایا، خاص طور پر ایسے حالات میں جب اندرون ملک شدید معاشی مشکلات اور بیرونی دباؤ موجود ہو کہ عسکریت پسندی کا مقابلہ کیا جائے۔ اب طالبان قیادت پر یہ حقیقت آہستہ آہستہ واضح ہو رہی ہے کہ اقتدار کے ایوانوں اور میدان جنگ سے منظر مختلف ہوتا ہے۔ اسلام آباد نے اس پیش رفت کا محتاط انداز میں خیرمقدم کیا ہے۔ پاکستان کے لیے خوش فہمی کے بجائے حقیقت پسندی کو پیش نظر رکھا جائے۔ سفارتی آداب کے تقاضوں کے تحت بھی پاکستان کی اولین ترجیح اپنی سلامتی اور عسکری حملوں کی روک تھام ہے جبکہ طالبان پاکستان اور دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات برقرار رکھنا چاہتے ہیں تاکہ معاشی مشکلات میں کمی لائی جا سکے اور بین الاقوامی سطح پر ان کی حکومت کو تسلیم کیے جانے کی راہ ہموار ہو۔ حکمران طالبان کا تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)، داعش خراسان یا دیگر چھوٹے دھڑوں پر مکمل کنٹرول نہیں ہے، کم از کم یہ امکان موجود ہے کہ یہ گروہ اس پابندی کو غداری یا کمزوری کی علامت سمجھتے ہوئے مزید جارحانہ رویہ اختیار کریں، جس سے حملوں اور اشتعال انگیزی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ گذشتہ ہفتے یہ فتویٰ جاری کر کے طالبان دراصل ایک غیر یقینی مرحلے میں داخل ہو گئے ہیں کیونکہ اس فیصلے سے اندرونی اختلافات اور طاقت کی کشمکش جنم لے سکتی ہے۔ افغان طالبان کے بعض دھڑے اسے پاکستانی دباؤ کے سامنے جھکنے کے مترادف سمجھ سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ طالبان کو افغانستان میں موجود ان غیر ملکی جنگجوؤں سے بھی نمٹنا پڑ سکتا ہے جو اس حکم پر عمل کرنے سے انکار کریں۔ پندرہ اگست، 2025 کو افغان طالبان کے سکیورٹی اہلکار افغانستان پر اقتدار سنبھالنے کی چوتھی سالگرہ پر گاڑی میں بیٹھے ہوئے ہیں (اے ایف پی) اس فتوے کے بعد کابل میں طالبان قیادت کو ٹی ٹی پی کے ساتھ تعلقات سنبھالنے، اس کی قیادت سے حکم پر عمل درآمد کی یقین دہانی حاصل کرنے اور ممکنہ طور پر داعش خراسان اور دیگر وابستہ یا متوازی گروہوں سے براہ راست نمٹنے کی ضرورت پیش آئے گی۔ کابل نے اب تک اپنی سرزمین پر موجود غیر ملکی عسکریت پسند گروہوں کے ساتھ براہ راست تصادم سے گریز کیا ہے اور زیادہ توجہ اندرونی مسائل پر مرکوز رکھی ہے کیونکہ ایسے تصادم مہنگے ثابت ہو سکتے ہیں اور حکمرانی کے اہداف سے توجہ ہٹا سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ طالبان یہ تاثر بھی نہیں دینا چاہتے کہ وہ اسلام آباد کے ماتحت یا اس کے کسی پراکسی کردار میں ہیں۔ جیسے جیسے پاکستان نے افغانستان میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش کی، طالبان نے اپنی خودمختاری اور اختیار جتانا ضروری سمجھا۔ گذشتہ دو ماہ کے دوران اسلام آباد نے کابل کے خلاف عسکری، معاشی اور سیاسی سطح پر نسبتاً سخت رویہ اختیار کیا ہے۔ اس میں سرحدی گزرگاہوں کی بندش، افغان حدود میں فضائی حملے، پاکستان سے افغان پناہ گزینوں کی بے دخلی اور طالبان حکومت کے لیے سخت سفارتی زبان کا استعمال شامل ہے۔ صوبہ ننگرہار میں چھ ستمبر 2023 کو افغان طالبان کے سکیورٹی اہلکار کھڑے ہیں (اے ایف پی/ شفیع اللہ کاکڑ) مئی میں، انڈیا کے ساتھ پاکستان کی فوجی کشیدگی کے فوراً بعد، اسلام آباد نے افغانستان کے ساتھ سفارتی تعلقات کو سفیر کی سطح تک بڑھایا تھا۔ تاہم حالیہ ہفتوں میں پاکستان نے یو ٹرن لیتے ہوئے افغان حکومت کے بجائے ’طالبان رجیم‘ کی اصطلاح استعمال کرنا شروع کر دی ہے۔ مزید پڑھ اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field) کئی مبصرین نے اسلام آباد کے اس سخت مؤقف پر سوال اٹھائے ہیں اور یاد دلایا ہے کہ ٹی ٹی پی دو دہائیوں سے زائد عرصے سے موجود ہے اور خود پاکستان بھی اس گروہ کو مکمل طور پر ختم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ پاکستان کی اس پالیسی نے کابل کو متبادل علاقائی شراکت داریوں پر غور کرنے پر مجبور کیا ہے، جن میں انڈیا بھی شامل ہے اور اس کے نتیجے میں طالبان کا لہجہ بھی اسلام آباد کے لیے مزید سخت ہوا ہے۔ علاقائی فریقین کو اس صورت حال میں نہایت احتیاط سے آگے بڑھنا ہوگا اور اپنے تزویراتی مفادات کو اس خطرے کے ساتھ متوازن رکھنا ہوگا کہ عسکریت پسند دھڑے اس پابندی کو ناکام بنا سکتے ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ مفاہمتی عمل کو پٹری سے اترنے سے روکا جائے اور کابل میں موجود حکمرانوں کے ساتھ مؤثر رابطہ بڑھایا جائے۔ وسیع تر تناظر میں پاکستان کی ’ڈو مور‘ پالیسی کے ساتھ ساتھ، علاقائی ممالک اور عالمی برادری کو افغانستان کے موجودہ حکمرانوں کے بارے میں زیادہ حقیقت پسندانہ رویہ اپنانا ہوگا۔ دباؤ، پابندیوں اور زمینی حقائق کو تسلیم نہ کرنے پر اصرار نہ صرف پاکستان مخالف مؤقف کو مزید سخت کرے گا بلکہ افغان عوام کی مشکلات میں اضافہ اور ہمسایہ و علاقائی ممالک کے لیے سلامتی کے چیلنجز کو بھی گہرا کرے گا۔ نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ پاکستان افغانستان پاک افغان تعلقات سرحدی کشیدگی دباؤ، پابندیوں اور زمینی حقائق کو تسلیم نہ کرنے پر اصرار نہ صرف پاکستان مخالف مؤقف کو مزید سخت کرے گا بلکہ افغان عوام کی مشکلات میں اضافے اور سلامتی کے چیلنجز کو بھی گہرا کرے گا۔ نائلہ محسود بدھ, دسمبر 17, 2025 - 11:30 Main image:
امیر خان متقی نے کہا کہ اس خطے نے گذشتہ 40 سالوں کے دوران بہت نقصان اٹھایا ہے اور اب وقت آ گیا ہےکہ اس سلسلے کو بند کیا جائے (اے ایف پی / وزارت خارجہ پاکستان)
نقطۂ نظر type: news related nodes: عالمی برادری افغان طالبان کو دہشت گردوں پر قابو پانے کے لیے آمادہ کرے: شہباز شریف افغان علما بیان کے باوجود طالبان سے ضمانت چاہیے: پاکستان افغانستان کا ایران میں ہونے والے علاقائی اجلاس میں شرکت سے انکار افغان سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہ ہو: افغان علما SEO Title: افغان علما کے فتوے کے بعد پاکستان کی ’ڈو مور‘ پالیسی پر نظرِثانی کی ضرورت copyright: Translator name: عبدالقیوم show related homepage: Hide from Homepage