امریکی صدر اپنے مقدمے کو نہ صرف اپنے ناقدین کو مرعوب کرنے کا ایک موقع سمجھتے ہیں بلکہ وہ برطانیہ کے ساتھ دیگر معاملات میں سرکاری نشریاتی ادارے بی بی سی کو دباؤ کے حربے کے طور پر بھی استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کو لڑنا پسند ہے۔ ایک لحاظ سے بی بی سی کے ساتھ ان کا جھگڑا اسی انجام کو پہنچنا تھا، یعنی ادارے کے خلاف 10 ارب ڈالر کا ہتکِ عزت کا دعویٰ۔ صرف بی بی سی کی معافی کافی نہیں تھی، یا کم از کم ان کا اصرار ہے کہ یہ ناکافی تھی۔ برطانیہ اور دنیا کے بڑے حصے کے لیے بی بی سی اہمیت رکھتا ہو گا، لیکن ٹرمپ کے لیے نہیں۔ یہ کوئی امریکی ادارہ نہیں، اور نہ ہی ان کے ووٹرز (مداحوں) کے ’ڈی این اے‘ میں رچا بسا ہے۔ وہ اسے جتنا چاہیں رگید سکتے ہیں۔ وہ ایسا یہ جانتے ہوئے بھی کرتے ہیں کہ ان کا یہ حریف برطانوی ریاست ہی کا ایک بازو ہے۔ یہ کوئی نجی کاروبار نہیں بلکہ ایسا ادارہ ہے جس میں کیئر سٹارمر کی بھی چلتی ہے۔ اس سے انہیں وہ چیز مل جاتی ہے جس کی انہیں ہمیشہ تلاش رہتی ہے اور جسے وہ بہت عزیز رکھتے ہیں: یعنی ’لیوریج‘ (دباؤ ڈالنے کی صلاحیت)۔ اب بی بی سی کسی تنازعے میں محض ایک فریق نہیں رہا بلکہ ایک سفارتی ’بارگیننگ چِپ‘ بن چکا ہے، جسے وہ برطانوی حکومت کے خلاف بار بار استعمال کر سکتے ہیں۔ یہ محض اتفاق بھی ہو سکتا ہے کہ انہوں نے اپنے وکلا کو قانونی کارروائی کا اشارہ اس وقت دیا جب انہوں نے برطانیہ کے ساتھ 31 ارب ڈالر کی مجوزہ ’خوشحالی ڈیل‘ (Prosperity Deal) کو التوا میں ڈالا، لیکن یہ بات قابلِ غور ہے کہ ’ٹرمپ کی دنیا‘ میں معاملات کتنی کثرت سے ایک دوسرے سے ٹکراتے ہیں۔ ٹیکنالوجی کے تجارتی معاہدے کو سٹارمر کی ایک بڑی کامیابی قرار دیا گیا تھا۔ اس کے التوا کی وجہ برطانیہ کے نئے ڈیجیٹل ٹیکس اقدامات پر امریکہ کا عدم اطمینان بتائی گئی۔ برطانیہ کے سرکاری نشریاتی ادارے کے خلاف مقدمہ اگرچہ ایک الگ کہانی تھی، مگر یہ بھی اسی دن سامنے آئی۔ تاہم بات گھوم پھر کر وہیں آ جاتی ہے، کیونکہ جب ٹرمپ کو کسی سے پرخاش ہو تو ان کا سنہری اصول یہی ہوتا ہے: ’جو میں کہوں وہ کرو، مگر میرے عمل پر بات مت کرو۔‘ ٹرمپ کی نظر میں معافی سے زیادہ اہمیت پیسے کی ہے اور اس معاملے میں انہیں پیسے کی مہک آ رہی ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ بی بی سی کی شرمندگی اور پس و پیش کے کوئی معنی تب ہی ہوں گے جب اس کے ساتھ ڈالر، اور ڈھیر سارے ڈالر، ادا کیے جائیں۔ چنانچہ وہ اپنے ہوم گراؤنڈ یعنی فلوریڈا کی ایک عدالت میں مقدمہ دائر کر رہے ہیں۔ بی بی سی نے اپنی تیاری مکمل کر رکھی ہے۔ جب انہوں نے پہلی بار ’پینوراما‘ پروگرام میں کیپیٹل ہل والی تقریر کی ایڈیٹنگ پر مقدمے کی دھمکی دی تھی (جس میں انہیں تشدد پر اکساتے ہوئے دکھایا گیا تھا حالانکہ وہ ایسا نہیں کر رہے تھے)، تو ادارے کو غالباً یہ مشورہ دیا گیا ہو گا کہ اگرچہ ایڈیٹنگ میں ہیرا پھیری غلط تھی، مگر اس سے ان کی ساکھ کو کوئی خاص نقصان نہیں پہنچا کیونکہ (تشدد پر) اکسانا ان کے مزاج کا حصہ ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ 17 دسمبر 2025 کو ڈیلاویئر میں ڈوور ایئر فورس بیس سے واپسی پر جوائنٹ بیس اینڈریوز پر ایئر فورس ون سے دستبرداری کے بعد صحافیوں سے بات کر رہے ہیں (اینڈریو کیبلیرو۔رینولڈز / اے ایف پی) بالآخر اس پروگرام کے بارے میں (جو کافی عرصہ پہلے نشر ہوا تھا) کوئی شکایت نہیں آئی تھی سوائے ٹرمپ کے، اور وہ بھی تب جب ایڈیٹنگ کا یہ معاملہ منظر عام پر آیا۔ مزید یہ کہ ٹرمپ امریکہ میں بی بی سی پر مقدمہ دائر کر رہے ہیں، حالانکہ یہ قسط وہاں کبھی نشر ہی نہیں ہوئی تھی۔ بی بی سی آئی پلیئر (جس پر پینوراما آتا ہے) اور بی بی سی ون (جس نے اسے اصل میں دکھایا) امریکہ میں دستیاب ہی نہیں ہیں۔ یہاں تک تو بی بی سی کے لیے سب ٹھیک ہے۔ لیکن ان کا واسطہ ایک انتقامی حریف سے ہے، جو ایک بات ثابت کرنے پر تلا ہوا ہے، اور جو ہر قیمت پر کچھ بھی کرنے کو تیار ہے۔ بی بی سی کے پاس اتنی آسائش نہیں، نہ تو مالی طور پر اور نہ ہی اپنے ملک کی عدالت کو قائل کرنے کے یقین کے حوالے سے۔ مزید پڑھ اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field) قانونی عمل کے حصے کے طور پر ٹرمپ ’ڈسکوری‘ (شہادتوں تک رسائی) کے حقدار ہوں گے، جس کے تحت بی بی سی کے پروڈیوسرز اور انتظامیہ کو اس ’پینوراما‘ سے متعلق تقریباً ہر تفصیل (پروگرام سے پہلے اور بعد کی) فراہم کرنا ہو گی، لہذا اس میں یہ بھی شامل ہو گا کہ جب ایڈیٹنگ کا جھوٹ عیاں ہوا تو افسران کا ردعمل کیا تھا، وہ ٹرمپ کے بارے میں کیا سوچتے ہیں، اور انہوں نے اسے اور ٹرمپ کو کتنی سنجیدگی سے لیا۔ یہ بات ادارے کے لیے شرمندگی کا باعث بن سکتی ہے اور وہ ادارہ جو اپنی غیر جانبداری پر فخر کرتا ہے، سیاسی جانبداری کے مزید الزامات کی زد میں آ سکتا ہے۔ ان کی مضبوط دلیل ان باتوں سے کمزور پڑ سکتی ہے جو انہوں نے ایک ایسے وقت میں آپس میں کی ہوں گی جب انہیں کوئی قانونی خطرہ نظر نہیں آ رہا تھا۔ اس وقت کی لاپروائی سے کی گئی باتیں اور ای میلز اب ان کے لیے وبالِ جان بن سکتی ہیں۔ ٹرمپ اس معاملے میں پرانا ریکارڈ رکھتے ہیں۔ وہ ’فیک نیوز میڈیا‘ (جیسا کہ وہ اپنے ناقدین کو کہتے ہیں) کو لتاڑنا اور ان کا پیچھا کرنا پسند کرتے ہیں۔ وہ قانون کا سہارا لینے سے نہیں گھبراتے اور امریکہ کے بڑے بڑے میڈیا کارپوریشنز سے ٹکر لے چکے ہیں۔ تاہم، وہ اسی طرح معاملے کو باہمی رضامندی سے حل کرنے پر بھی خوش رہے ہیں۔ چنانچہ، انہوں نے اینکر جارج سٹیفانوپولوس کے تبصروں پر ڈزنی کے ذیلی ادارے ’اے بی سی‘ کے ساتھ ڈیڑھ کروڑ ڈالر میں تصفیہ کیا۔ اسی طرح، انہوں نے سی بی ایس نیوز کے مالک پیراماؤنٹ کے ساتھ 1.6 کروڑ ڈالر کا معاہدہ کیا جب ان کی ڈیموکریٹ حریف کملا ہیرس کے ایک انٹرویو کو ان کے حق میں ایڈٹ کیا گیا تھا۔ دونوں مقدمات بہت بڑی رقوم کے لیے تھے لیکن کچھ بحث مباحثے اور روایتی تذلیل کے بعد، وہ نیچے آ کر کم رقم پر راضی ہو گئے۔ مشہور شخصیات اور عمائدین بی بی سی کے حق میں جتنا چاہیں بولیں، لیکن اس سے ٹرمپ کی اس نفرت کو مزید ہوا ملے گی جسے وہ اپنے خلاف ایک ’لبرل نیوز اور تخلیقی سازش‘ سمجھتے ہیں۔ ویسے بھی ان میں سے کسی کی بات ٹرمپ پر اثر انداز ہونے کا امکان نہیں ہے، سوائے اس کے کہ ان میں واقعی ’روری میکلروئے‘ (مشہور گولفر) شامل ہوں۔ ایک شخص ایسا کر سکتا ہے، اور وہ خود سٹارمر ہیں۔ ممکنہ طور پر ایک شخص اور یعنی بادشاہ چارلس۔ یہ بات ٹرمپ کو بھائے گی کہ وزیراعظم اور بادشاہ معافی مانگ رہے ہیں۔ یا پھر ظاہر ہے، نقد رقم! صدر ڈونلڈ ٹرمپ بی بی سی برطانیہ امریکی صدر اپنے مقدمے کو نہ صرف اپنے ناقدین کو مرعوب کرنے کا ایک موقع سمجھتے ہیں بلکہ وہ برطانیہ کے ساتھ دیگر معاملات میں سرکاری نشریاتی ادارے بی بی سی کو دباؤ کے حربے کے طور پر بھی استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ کرس بلیک ہرسٹ جمعرات, دسمبر 18, 2025 - 06:30 Main image:
میڈیا کے ارکان 10 نومبر، 2025 کو لندن میں بی بی سی کی عمارت کے باہر منتظر ہیں (اے ایف پی)