قرطبہ کی رواداری سے تحریکِ خلافت تک: جب جذبات عقل پر غالب آ گئے

فطرتاً انسان جذباتی ہوتا ہے۔ اس کے یہ جذبات اندرونی طور پر خاموش رہتے ہیں۔ ان کا حساب اس وقت ہوتا ہے جب معاشرہ کسی بحران، سیاسی اور سماجی اثرات سے متاثر ہوتا ہے۔ لوگوں کے جذبات سے فائدہ اٹھانے والے سیاست دان، مذہبی رہنما، تاجر، شاعر اور دانشور ہوتے ہیں۔ معاشرے کے جذبات کبھی تعمیری شکل اختیار کرتے ہیں اور کبھی تباہی کا باعث ہوتے ہیں۔ جذبات کا تعلق مختلف نظریات، افکار، عقائد سے ہوتا ہے۔ اپنے جذباتی تعلق کی بنا پر اپنے خیالات کو سچ سمجھتا ہے۔ بعض اوقات یہ عقیدت اس قدر گہری ہو جاتی ہے کہ وہ اس کی خاطر جان دینے پر بھی تیار ہو جاتا ہے۔ جذبات کی شدت اس کی سوچ اور فکر کو متاثر کرتی ہے اور وہ جذبات کے متعین راستے پر چل پڑتا ہے۔ یورپ کے عہد وسطیٰ میں چرچ کی جانب سے عیسائیوں کو وارننگ دی گئی کہ وہ مذہبی رواداری پر عمل نہ کریں کیونکہ جب وہ دوسرے مذاہب کے لوگوں سے ملیں گے، ان سے بات چیت کریں گے تو اس سے ان کی مذہبی تعلیمات متاثر ہونگی۔ اسی رویے کو ہم مسلمانوں میں بھی دیکھتے ہیں۔ جب مسلمان اندلس میں حکمران تھے تو اسکے مشہور شہر قرطبہ میں ایک ہی گلی میں مسلمان، عیسائی اور یہودی ساتھ ساتھ رہتے تھے۔ کوئی جھگڑا اور فساد نہیں تھا۔ اس پر مراکش کے علما نے احتجاج کیا اور قرطبہ میں جا کر مسلمانوں کو شرم کا احساس دلایا کہ تم کافروں کے ساتھ کیوں رواداری کا سلوک کرتے ہو۔ اس کے نتیجے میں وہاں مذہبی فسادات کی ابتدا ہوئی۔ بر صغیر ہندوستان میں بھی برطانوی دور حکومت میں ہندومسلم فرقہ واریت شروع ہوئی۔ دونوں جانب سے مذہبی جذبات کو تہواروں اور رسومات کی ادائیگی کے موقع پر ابھارا جاتا تھا۔ اور ہندوستان کا گنگا جمنی معاشرہ مذہبی تاثرات اور نفرتوں کی و جہ سے علیحدہ علیحدہ ہو گئے۔ فرقہ وارانہ فسادات کی ابتدا ہوئی۔ تاریخ نویسی کو مذہبی نقطہ نظر سے لکھا جانے لگا۔ ادب اور شاعری میں بھی یہ تعصبات بھرپور طریقے سے داخل ہوئے اور لوگوں کے جذبات کو متاثر کیا۔ انیسویں صدی کے ہندوستان میں مسلمانوں کی سیاست جذباتی تھی۔ مثلاً سید احمد شہید کی تحریک محمدی نے مسلمانوں کو سکھوں کے خلاف کیا جس کے نتیجے میں بالاکوٹ کا واقعہ 1831 میں پیش آیا۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد کچھ مذہبی جماعتوں نے ہندوستان کو دارا لحرب ( DAR AL HARAB) کا فتویٰ لیا تو نوجوانوں کی ایک تعداد ہجرت کر کے افغانستان، وسطہ ایشیا اور روس چلی گئی۔ ان کی اس قربانی کا صلہ نہ ان کو ملا اور نہ ہی ہندوستان کے مسلمانوں کو۔ جب پہلی جنگ عظیم کے بعد مصطفیٰ کمال نے ترکی سے خلافت کا خاتمہ کیا تو ہندوستان کے مسلمان بے حد جذباتی ہو گئے۔ خلافت تحریک چلائی تاکہ خلافت کا ادارہ دوبارہ سے قائم ہو۔ علما اور سیاست دانوں نے پرجوش تقاریر کیں۔ مولانا شوکت علی اور محمد علی کی والدہ نے اپنے بیٹوں سے کہا کہ: ’جان بیٹا خلافت پہ دے دو۔‘ مصطفیٰ کمال ایک با عمل سیاست دان تھا۔ اس نے مسلمانوں کے جذبات کی کوئی پرواہ نہ کی۔ مزید پڑھ اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field) استبدادی حکومتوں میں اور آمروں کی سیاست میں نہ انصاف کو دیکھا جاتا ہے اور نہ لوگوں کی عزت کا خیال رکھا جاتا ہے اور اپنے اقتدار کے لیے یہ انسانی جذبات کو کچل کر انہیں خاموش کر دیتے ہیں۔ معاشرے کے جذبات کو تجارتی اور کمرشل فائدے کے لیے انسانی جذبات کو بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ مثلاً خاص طور سے جب سے ٹیلی ویژن آیا ہے تو کمرشل کمپنیوں کی جانب سے اپنی اشیا کی فروخت کے لیے مختلف قسم کے اشتہارات دیتی ہیں۔ مثلاً خواتین میں کپڑوں کے نئے فیشن مقبول ہوتے ہیں جن کو ماڈلز کے ذریعے متعارف کروایا جاتا ہے۔ مثلاً نئی ٹیکنالوجی نئے نئے کھانوں کی ترکیبیں، مختلف بیماریوں کے لیے دوائیاں، کھیلوں کا سامان، زیورات اور جوتوں کے ڈیزائن وغیرہ وغیرہ۔ جب یہ اشتہارات لوگ دیکھتے ہیں تو ان کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کو حاصل کیا جائے۔ جو ان کی قیمت ادا نہیں کر سکتے، وہ ونڈو شاپنگ کے ذریعے اپنے جذبات کو بہلا لیتے ہیں۔ بعض اوقات یہ خواہشات بدعنوانی اور رشوت کو جنم دیتی ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام میں انسانی جذبات کو ابھارنے کے لیے اشتہارات میں نئے نئے طریقے استعمال کیے جاتے ہیں۔ اشتہار کے یہ مناظر اس قدر دلفریب اور جاذب نظر ہوتے ہیں کہ غریب اور مفلس آدمی بھی ان میں کھو جاتا ہے۔ لہذا ہم دیکھتے ہیں کہ زندگی کے ہر شعبے میں جذباتی اپیلوں کے ذریعے سیاست دان اپنی مقبولیت بڑھاتے ہیں اور لوگ جذبات سے مغلوب ہو کر مظاہرے کرتے ہیں۔ نعرے لگاتے ہیں اور اپنی توانائی کو سیاست دانوں کے حق میں لگاتے ہیں۔ اس لیے وہ سیاستدان جو اچھا مقرر ہوتا ہے۔ زبان اور بیان میں ماہر ہوتا ہے۔ وہ جھوٹے وعدے کر کے عوام کو اپنی جانب متوجہ کر لیتا ہے مگر اقتدار میں آنے کے بعد وہ اپنے کیے گئے تمام باتوں کو بھول جاتا ہے۔ جذبات کا ابھار ہمیشہ وقتی ہوتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ اس کا غصہ اور احتجاج ختم ہو جاتے ہیں اور ایک بار پھر اسکے ابھرتے ہوئے جذبات خاموش ہو کر اس کی زندگی کا حصہ بن جاتے ہیں۔ انسانی جذبات سپین برصغیر متحدہ ہندوستان اشتہارات سیاست دان جذبات کا ابھار ہمیشہ وقتی ہوتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ اس کا غصہ اور احتجاج ختم ہو جاتے ہیں اور ایک بار پھر اسکے ابھرتے ہوئے جذبات خاموش ہو کر اس کی زندگی کا حصہ بن جاتے ہیں۔ ڈاکٹر مبارک علی جمعرات, دسمبر 18, 2025 - 06:30 Main image:

16جون 2016 کو بنائی گئی اس تصویر میں قرطبہ شہر میں ایک رومن خانقاہ کی باقیات کو دیکھا جا سکتا ہے (وکی میڈیا کامنز)

بلاگ type: news related nodes: تاریخ کا ایک فراموش کردہ موضوع: انسانی جذبات کیا مصنوعی ذہانت فلموں میں انسانی جذبات پیش کر سکے گی؟ اذیت ناک اشتہارات کیسے دیکھیں چاند پر اشتہارات چلانے کا منصوبہ SEO Title: قرطبہ کی رواداری سے تحریکِ خلافت تک: جب جذبات عقل پر غالب آ گئے copyright: show related homepage: Hide from Homepage