حکومت نے ایک غیر روایتی راستہ اختیار کرتے ہوئے دنیا کی سب سے بڑی کرپٹو ایکسچینج بائنانس سے مفاہمتی یادداشت پر دستخط کیے ہیں، جس کے تحت دو ارب ڈالرز کے سرکاری اثاثوں کی ڈیجیٹل ٹوکنائزیشن کے لیے راستے تلاش کیے جائیں گے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مشکل مالی حالات میں پاکستان نے بائنانس سے معاہدہ کیوں کیا ہے اور اس سے پاکستانی عوام کو فائدہ ہوگا یا نقصان؟ پاکستان ایک بار پھر معاشی دوراہے پر کھڑا ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر دباؤ میں ہیں، بیرونی قرض مہنگا ہو رہا ہے، عالمی منڈیوں میں پاکستان کے بانڈز پر اعتماد کم ہے، ریٹنگ ایجنسیاں محتاط ہیں، آئی ایم ایف پروگرام کی شرائط مزید سخت ہوتی جا رہی ہیں اور روایتی سرمایہ کاری کے دروازے محدود ہوتے جا رہے ہیں۔ ایسے میں اگر سرکاری اثاثوں جیسے بانڈز وغیرہ کو بلاک چین پر ڈیجیٹل ٹوکن کی صورت میں پیش کیا جائے تو عالمی سرمایہ کاروں تک براہِ راست رسائی مل سکتی ہے، کم شرح سود پر فوری لیکویڈیٹی حاصل کی جا سکتی ہے۔ سادہ لفظوں میں اثاثوں کی شکل بدل کر سرمایہ کھینچنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ڈیجیٹل ٹوکنائزیشن سے عالمی سرمایہ کار پاکستان کے سرکاری اثاثوں میں سرمایہ کاری کر سکیں گے، جس سے زرمبادلہ بڑھے گا اور روپے پر دباؤ کم ہوگا۔ اگر واقعی بیرونی سرمایہ آیا اور معیشت میں استحکام پیدا ہوا تو اس کے اثرات مہنگائی میں کمی، درآمدی دباؤ میں کمی اور مجموعی معاشی اعتماد کی بحالی کی صورت میں عوام تک پہنچ سکتے ہیں۔ مزید یہ کہ اگر یہ نظام شفاف ہوا اور عام پاکستانی کو بھی ڈیجیٹل بانڈز یا اثاثہ ٹوکن میں سرمایہ کاری کا موقع ملا تو یہ پہلی بار ہوگا کہ چھوٹا سرمایہ کار ریاستی مالیاتی نظام میں براہِ راست شریک ہو سکے گا۔ نظریاتی طور پر یہ ایک مثبت پیش رفت ہو سکتی ہے۔ یہ معاہدہ پاکستانی نوجوانوں کے لیے بھی مواقع پیدا کر سکتا ہے۔ بلاک چین، فِن ٹیک اور ڈیجیٹل فنانس، وہ شعبے ہیں جن میں دنیا بھر میں روزگار تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ اگر حکومت اس معاہدے کو تربیت، سکل ڈیولپمنٹ اور مقامی ٹیلنٹ کے فروغ سے جوڑ دے تو ہزاروں نوجوان ملک سے باہر جائے بغیر عالمی ڈیجیٹل معیشت سے جڑ سکتے ہیں اور بے روزگاری کم ہو سکتی ہے۔ پاکستان کی معیشت کا ایک بڑا سہارا بیرونِ ملک پاکستانیوں کی بھیجی گئی ترسیلاتِ زر ہیں۔ موجودہ نظام میں ان ترسیلات پر بھاری فیس، تاخیر اور ہنڈی حوالہ جیسے غیر قانونی چینلز کا دباؤ موجود ہے۔ اگر بلاک چین پر مبنی ڈیجیٹل نظام کو ریگولیٹڈ انداز میں اپنایا گیا تو ترسیلات تیز، سستی اور شفاف ہو سکتی ہیں۔ اس کا براہِ راست فائدہ ان لاکھوں خاندانوں کو ہوگا جو ہر ماہ بیرونِ ملک سے آنے والی رقم پر گزارا کرتے ہیں۔ ایک اور اہم پہلو صارفین کا تحفظ ہے۔ اس وقت جعلی سکیمیں اور فراڈ عام ہیں۔ بائنانس کے ساتھ تعاون کے نتیجے میں اگر واضح ریگولیٹری فریم ورک سامنے آتا ہے تو کے وائے سی اور منی لانڈرنگ کے خلاف اقدامات لازمی ہوں گے۔ اس سے عام صارف کے لیے سرمایہ کاری زیادہ محفوظ ہو سکتی ہے اور فراڈ کے امکانات کم ہو سکتے ہیں۔ محمد ہارون دبئی میں دنیا کی پہلی پرائیویٹ ایکویٹی فنڈ انکارپوریشن بلاک چین ٹوکن ایکسچینج کے ایڈوائزر رہے ہیں اور کرپٹو کرنسی کے حوالے سے حکومت پاکستان کی رہنمائی کر رہے ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’بائنانس سے معاہدہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔ تقریباً دو کروڑ سے زیادہ پاکستانی بائنانس میں سرمایہ کاری یا ٹریڈنگ سے جڑے ہیں اور تقریباً چار کروڑ پاکستانی کرپٹو ٹریڈنگ سے جڑے ہیں۔‘ بقول ہارون: ’کرپٹو اڈاپشن میں امریکہ اور انڈیا کے بعد پاکستان تیسرا بڑا ملک ہے۔ ایسے حالات میں پاکستانی عوام کو بغیر کسی قانون کے چھوڑ دینا یا ان کے خلاف کارروائی کرنا فائدے سے زیادہ نقصان دہ ہو سکتا ہے۔‘ انہوں نے بتایا کہ ’ایک اندازے کے مطابق پاکستانی عوام تقریباً 35 ارب ڈالرز کی کرپٹو کرنسی کے مالک ہیں۔ یہ ملک کا اثاثہ ہیں۔ بائنانس سے معاہدہ مزید راستے کھول سکتا ہے اور 35 ارب ڈالرز سٹیٹ بینک آف پاکستان اور ملکی ڈالرز ذخائر کا حصہ بن سکتے ہیں۔ مزید پڑھ اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field) ’بڑے بڑے اثاثے صرف ایلیٹ کلاس ہی نہیں خرید سکے گی بلکہ عام آدمی بھی ان اثاثوں میں شراکت دار بن سکے گا۔‘ حکومتی پابندیوں اور بغیر کسی رہنمائی کے ہی پاکستانی عوام کرپٹو ٹریڈنگ میں تیسرے نمبر پر ہیں۔ اگر حکومت سربراہی کرے تو پاکستانی عوام اپنے اثاثے کیش کی بجائے بائنانس میں رکھنے کو ترجیح دیں گے، جس سے عوام اور سرکار دونوں کا فائدہ ہو سکتا ہے۔ بانڈز کے اجرا کے لیے بینکوں کی انڈر رائٹنگ فیس، لیگل اخراجات، کریڈٹ ریٹنگ، روڈ شوز اور کلیئرنگ چارجز ملا کر دو ارب ڈالر کے بانڈز پر ابتدائی لاگت ہی 30 سے 40 ملین ڈالر تک پہنچ جاتی ہے، جبکہ ٹوکنائزیشن میں یہ خرچ دو تہائی سے بھی کم ہو سکتا ہے۔ تاہم یہاں ایک بڑا سوال بھی موجود ہے۔ کیا پاکستان کے پاس ایسا ریگولیٹری فریم ورک ہے جو ٹوکنائزڈ بانڈز کو محفوظ اور شفاف بنا سکے؟ کیا سٹیٹ بینک اور سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کے قوانین اس جدید فنانسنگ کو سنبھالنے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟ اور سب سے اہم، کیا آئی ایم ایف اس طریقۂ کار کو روایتی قرض ہی سمجھے گا یا اسے کسی اور شکل میں قبول کرے گا؟ یہ حقیقت بھی نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ ٹیکنالوجی خود مسئلے کا حل نہیں ہوتی۔ اگر گورننس کمزور ہو تو ٹوکنائزیشن بھی ایک نیا مالی خطرہ بن سکتی ہے، بالکل ویسے ہی جیسے ماضی میں کئی مالیاتی تجربات ناکام ہوئے۔ پاکستان ورچوئل ریگولیٹری اتھارٹی کے چیئرمین بلال بن ثاقب کے مطابق اگر پاکستان کرپٹو کرنسی کو قانونی شکل نہیں دیتا تو دوبارہ فیٹف کی گرے لسٹ میں شامل ہو سکتا ہے۔ کرپٹو اڈاپشن میں صرف ایک سال میں پاکستان نویں نمبر سے تیسرے نمبر پر آ گیا ہے۔ بائنانس کے ساتھ معاہدہ عوامی رائے کی ترجمانی کرنے کے مترادف ہے۔ نوٹ: یہ تحریر مصنف کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ کرپٹو کرنسی پاکستانی معیشت بینک ڈیجیٹل کرنسی اگر بانڈز اور دوسرے سرکاری اثاثوں کو بلاک چین پر ڈیجیٹل ٹوکن کی صورت میں پیش کیا جائے تو کیا عالمی سرمایہ کاروں تک براہ راست رسائی مل سکتی ہے؟ میاں عمران احمد ہفتہ, دسمبر 20, 2025 - 07:45 Main image:
پاکستان نے 12 دسمبر، 2025 کو کرپٹو ایکسچینج ’بائنانس‘ کے ساتھ مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کیے (وزارت خزانہ/ایکس)
معیشت type: news related nodes: پاکستان اور بائنانس کا دو ارب ڈالر کے اثاثے بلاک چین پر منتقل کرنے کا منصوبہ پاکستان کو کرپٹو اپنانے، بنانے والوں کی صف میں لانا چاہتے ہیں: بلال کرپٹو مائننگ کے لیے سستی بجلی کی تجویز آئی ایم ایف نے مسترد کر دی کرپٹوکرنسی ہے کیا اور کیسے کام کرتی ہے؟ SEO Title: پاکستان - بائنانس معاہدہ کتنا فائدہ مند؟ copyright: show related homepage: Hide from Homepage