کے پی میں امن جرگے، سیاسی پولرائزیشن اور انسداد دہشت گردی

اگر ریاست دہشت گردی کے تیز دھار پہلو کو طاقت کے استعمال (کائنیٹک فورس) کے ذریعے کند کر دیتی ہے تو معاشرے اس کی نظریاتی کشش پر قابو پاتے ہیں جب وہ انتہاپسند بیانیوں کو مسترد کر کے اعتدال پسند اقدار اور سماجی اصولوں کو مضبوط بناتے ہیں۔ اگر ہم دہشت گردی کو ایک برفانی تودے (آئس برگ) کے طور پر دیکھیں تو پرتشدد واقعات اس کا محض اوپری سرا ہوتے ہیں جبکہ اس کے گہرے اور ساختی مسائل سطح کے نیچے موجود ہوتے ہیں جن کے دیرپا حل کے لیے غیر عسکری (نان کائنیٹک) اقدامات درکار ہوتے ہیں۔ اس تناظر میں دہشت گردی کے خاتمے اور امن کی بحالی کے لیے ایک ہمہ گیر قومی حکمتِ عملی ضروری ہے جس میں ریاست اور معاشرے کے درمیان مضبوط تعلق کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ ریاست اور معاشرے کے تعلقات جتنے مضبوط ہوں گے دہشت گردی کو شکست دینے کے امکانات اتنے ہی زیادہ ہوں گے۔ افغانستان میں طالبان کی دوبارہ اقتدار میں واپسی کے بعد پاکستان میں دہشت گردی میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ اگرچہ پاکستان کی طالبان پر مرکوز افغان پالیسی جسے اب تبدیل کر دیا گیا ہے اور تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ساتھ مذاکرات میں داخل ہونے کا متنازع فیصلہ ملک میں بگڑتی ہوئی دہشت گردی کی صورتحال کے بڑے عوامل کے طور پر زیرِ بحث آتے ہیں تاہم موجودہ سماجی اور سیاسی پولرائزیشن بھی اتنی ہی ذمہ دار ہے۔ بدقسمتی سے انسدادِ دہشت گردی کی پالیسیوں کو جس انداز میں سیاست زدہ کیا گیا اور معمولی سیاسی مفادات کے لیے استعمال کیا گیا اس نے دہشت گرد نیٹ ورکس کو پاکستانی معاشرے کے اندرونی شگافوں سے فائدہ اٹھانے کا موقع فراہم کیا۔ ریاست اور معاشرے کے درمیان وہ نمایاں خلیج جسے دہشت گرد نیٹ ورکس اپنے مفاد کے لیے استعمال کر رہے ہیں سب سے زیادہ خیبر پختونخوا میں نظر آتی ہے، وہ صوبہ جو دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ ہر بار جب خیبر پختونخوا کی مقامی برادریاں فوجی آپریشنز کے خلاف احتجاج کے لیے سامنے آتی ہیں تو ٹی ٹی پی جیسے دہشت گرد گروہ ان اقدامات کی تعریف کرتے ہیں اور افغانستان۔پاکستان خطے میں بڑے فوجی آپریشنز کے آغاز کی کوششوں کی مزاحمت پر مقامی آبادی کی بھرپور ستائش کرتے ہیں۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ مرکزی حکومت اور خیبر پختونخوا کی حکومت کے درمیان انسدادِ دہشت گردی کی کارروائیوں اور افغان پالیسی کے معاملات پر اختلافات پائے جاتے ہیں۔ بارہا خیبر پختونخوا کی حکومت نے افغان مہاجرین کی بے دخلی، سرحدوں کی بندش یا افغانستان میں عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں پر حملوں پر اعتراض کیا ہے۔ ریاست اور خیبر پختونخوا کے درمیان موجود اختلافات کا ایک پیمانہ صوبے میں منعقد ہونے والے مختلف امن جرگے ہیں، چاہے وہ صوبائی حکومت کے دائرہ اختیار میں ہوں یا مقامی برادریوں کی جانب سے منعقد کیے گئے ہوں۔ یہ جرگے اس ناخوشگوار حقیقت کو بے نقاب کرتے ہیں کہ مقامی حمایت حاصل کیے بغیر سکیورٹی اقدامات کا یکطرفہ نفاذ الٹا اثر ڈالے گا اور اس کا فائدہ دہشت گرد نیٹ ورکس کو پہنچے گا۔ ساتھ ہی یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ سکیورٹی پالیسیوں کو سیاسی مفادات کے لیے سیاست زدہ کرنا مجموعی امن کو خطرے میں ڈال دیتا ہے حتیٰ کہ ان لوگوں کے لیے بھی جو انہیں اپنے محدود سیاسی مفادات کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اس کی ایک نمایاں مثال نومبر میں خیبر کی وادی تیراہ میں بار قمبر خیل اور ملک دین خیل قبائل کی جانب سے منعقد کیے گئے دو جرگے ہیں جو علاقے میں بگڑتی ہوئی سکیورٹی صورتحال کے تناظر میں منعقد ہوئے۔ یہ جرگے علاقے میں ٹی ٹی پی کی بڑی تعداد میں دراندازی کے بعد بلائے گئے تھے۔ مقامی قبائل نے بڑے فوجی آپریشن کی مخالفت کی کیونکہ انہیں بڑے پیمانے پر نقل مکانی اور شہری انفراسٹرکچر کی تباہی کا خدشہ تھا۔ فوجی کارروائیوں کے خلاف مقامی مزاحمت کے بعد سکیورٹی فورسز نے بار قمبر خیل اور ملک دین خیل قبائل سے کہا کہ وہ غیر عسکری ذرائع سے امن بحال کریں یا علاقہ خالی کر دیں۔ جب یہ جرگے منعقد ہو رہے تھے تو وادی تیراہ میں ٹی ٹی پی اور سکیورٹی فورسز کے درمیان شدید لڑائی اور جھڑپیں جاری تھیں، یہ کوئی باضابطہ آپریشن نہیں تھا۔ شہری جانی نقصان کو کم سے کم رکھنے اور شہری انفراسٹرکچر کو نقصان سے بچانے کے لیے سکیورٹی فورسز نے علاقے میں کرفیو نافذ کر دیا۔ اس کے باوجود مقامی لوگ اپنے گھروں میں محصور ہو گئے اور خود کو ٹی ٹی پی اور سکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپوں کے بیچ پھنسا ہوا پایا۔ دہشت گردی سے نمٹنے کے ترجیحی طریقہ کار پر مقامی آبادی اور سکیورٹی فورسز کے درمیان کشیدگی خیبر پختونخوا میں ایک پیچیدہ چیلنج کے طور پر ابھری ہے۔ ایک طرف یہ اختلاف فوجی اسٹیبلشمنٹ اور خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت کے درمیان اختلافات سے جنم لینے والے بڑھتے ہوئے ریاست اور معاشرے کے فاصلے کی نشاندہی کرتا ہے۔ دوسری طرف یہ مقامی برادریوں کی مسلسل تشدد اور روزمرہ زندگی پر اس کے تباہ کن اثرات سے پیدا ہونے والی تھکن کو ظاہر کرتا ہے۔ وہ بڑے فوجی آپریشنز کی افادیت پر سوال اٹھاتے ہیں اور یہ سوچتے ہیں کہ ماضی میں اسی نوعیت کے آپریشنز عسکریت پسندی کے خاتمے میں کیوں ناکام رہے۔ مقامی آبادی کی فوجی آپریشنز کی مخالفت اور عسکریت پسند نیٹ ورکس کے ساتھ مذاکرات کی ترجیح نے ان گروہوں کی ساکھ میں اضافہ کیا ہے اور کسی حد تک انہیں ایک اہم فریق کے طور پر قائم کر دیا ہے۔ مزید برآں ریاست اور معاشرے کے درمیان موجود خلیج کو عسکریت پسند نیٹ ورکس نے کامیابی سے استعمال کر کے اپنے اثر و رسوخ میں اضافہ کیا اور مقامی امن کو کمزور کیا ہے۔ مزید پڑھ اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field) اسی طرح صوبے میں بڑھتے ہوئے دہشت گردی کے واقعات اور بگڑتی ہوئی سکیورٹی صورتحال سے نمٹنے کے لیے خیبر پختونخوا کی حکومت نے نومبر میں پشاور میں ایک امن جرگہ بھی منعقد کیا۔ اس جرگے کے اختتام پر اکیس نکاتی اعلامیہ جاری کیا گیا جس پر اکیس اراکین اور خیبر پختونخوا اسمبلی کے سپیکر بابر سلیم سواتی نے دستخط کیے۔ اس اعلامیے میں صوبائی اسمبلی پر زور دیا گیا کہ وہ امن کے لیے ایک صوبائی ایکشن پلان تشکیل دے۔ دیگر نکات کے علاوہ جرگے نے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ طالبان حکومت کے ساتھ مذاکرات کو ترجیح دے اور افغان پالیسی کے حوالے سے خیبر پختونخوا کی حکومت سے مشاورت کرے۔ اس میں افغانستان کے ساتھ تمام تجارتی راستے دوبارہ کھولنے اور خیبر پختونخوا اور وفاقی حکومت کے درمیان کشیدگی کم کرنے کی بھی سفارش کی گئی۔ جرگے نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ جاری انسدادِ دہشت گردی کارروائیوں پر ایک مقررہ مدت کے اندر قانون سازوں کو اِن کیمرہ بریفنگ دی جائے۔ ایک بار پھر یہ جرگہ اسلام آباد اور خیبر پختونخوا کی حکومت کے درمیان سیاست اور اختلافِ رائے کو بے نقاب کرتا ہے جو انسدادِ دہشت گردی کی کارروائیوں پر منفی اثر ڈال رہے ہیں۔ جہاں صوبائی حکومت کو سکیورٹی پالیسیوں کو سیاست کا شکار بنانے سے گریز کرنا چاہیے وہیں اسلام آباد کو بھی یکطرفہ طور پر سکیورٹی پالیسیاں نافذ کرنے کے بجائے تمام فریقین کے درمیان اتفاقِ رائے کو یقینی بنانا چاہیے۔ پاکستانی حکام کو سیاسی اور سکیورٹی تقسیم سے بالاتر ہو کر دہشت گردی کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے اتفاقِ رائے پیدا کرنا ہوگا اور داخلی سلامتی کے معاملے کو سیاست زدہ کرنے سے اجتناب کرنا ہوگا تاکہ بہتر نتائج حاصل کیے جا سکیں۔ اس اتفاقِ رائے کی عدم موجودگی عسکریت پسند نیٹ ورکس کو مزید مضبوط کرے گی۔ نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ مصنف ایس راجاراتنام اسکول آف انٹرنیشنل اسٹڈیز، سنگاپور میں سینئر ایسوسی ایٹ فیلو ہیں۔ X: @basitresearcher دہشت گردی انتہاپسندی افغانستان امن جرگہ دہشت گردی کے خاتمے اور امن کی بحالی کے لیے ایک ہمہ گیر قومی حکمتِ عملی ضروری ہے جس میں ریاست اور معاشرے کے درمیان مضبوط تعلق کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ عبدالباسط خان سوموار, دسمبر 22, 2025 - 07:00 Main image:

پشاور میں 12 نومبر، 2025 کو خیبر پختونخوا اسمبلی کے ہال میں امن جرگے کے شرکا گفتگو کر رہے ہیں (انڈپینڈنٹ اردو/اظہار اللہ)

زاویہ type: news related nodes: افغانستان کا ایران میں ہونے والے علاقائی اجلاس میں شرکت سے انکار افغانستان سے دہشت گردی ہمارے لیے سنگین ترین خطرہ: پاکستان افغانستان کے لیے امدادی سامان، پاکستان کا سرحد عارضی کھولنے کا اعلان ’خونریزی اور تجارت ایک ساتھ نہیں چل سکتی‘: پاکستان کی افغانستان کو تنبیہ SEO Title: کے پی میں امن جرگے، سیاسی پولرائزیشن اور انسداد دہشت گردی copyright: show related homepage: Hide from Homepage