دھرندر سے پہلے لیاری پر بنی پاکستانی فلمیں

حال ہی میں بالی وڈ فلم دھرندر میں لیاری اور اس سے منسلک کرداروں پر پاکستانیوں کا رد عمل ایک بات ثابت کرتا ہے کہ پاکستان میں کسی چیز کو اس وقت تک پذیرائی نہیں ملتی، جب تک اس پر سرحد پار کی مہر ثبت نہ ہوجائے۔ پاکستانی عوام کی نظریں  ادھار کی عینک کی محتاج ہیں۔ دھرندر سے پہلے پاکستانی فلم سازوں نے لیاری اور اس سے منسلک کہانیوں کو اپنے انداز میں پیش کیا ہے۔ ان فلموں کے پاس نہ تو بڑا بجٹ تھا اور نہ کوئی مارکیٹنگ نیٹ ورک، لیکن محدود ترین وسائل میں بھی اپنی کہانی سنانے کی تڑپ تھی۔ یہ فلمیں باکس آفس پر ناکام رہیں، اور وقت کی گرد میں کہیں کھو گئیں، لیکن اس سے ان کی اہمیت کم نہیں ہو جاتی ۔ یہ مضمون انہی گمنام اور کم بجٹ والی فلموں کے نام ہے جو لیاری میں بنیں اور جن کے فلم سازوں نے حالات کی بے رحمی کے باوجود ہار نہیں مانی۔ ان کوششوں کا تذکرہ اس لیے ضروری ہے تاکہ عوام یہ جان سکیں کہ جب ہم بالی وڈ کی فلموں میں اپنے شہر ڈھونڈ رہے تھے، اس وقت ہمارے اپنے فن کار کٹھن حالات میں ہماری اپنی تصویر کشی کر رہے تھے۔ یہ محض فلموں کا تعارف نہیں، بلکہ اس تخلیقی جدوجہد کی ایک داستان ہے جسے ہم نے شاید اپنی بے حسی کی نذر کر دیا تھا۔ ’شاہ‘ (14 اگست، 2015) پاکستانی اولمپیئن باکسر حسین شاہ، جنہوں نے 1988 کے سیؤل اولمپکس میں کانسی کا تمغہ جیتا تھا، یہ ان کی زندگی پر مبنی فلم تھی جسے اے آر وائی فلمز کی جانب سے ریلیز کیا گیا تھا۔ اس فلم کو عدنان سرور نے تحریر کیا تھا اور وہی اس کے ہدایت کار بھی تھے، جب کہ مرکزی کردار یعنی حسین شاہ کا کردار بھی انہوں نے خود ہی ادا کیا تھا۔ پاکستان کی حالیہ فلمی تاریخ میں یہ وہ پہلی فلم تھی جو لیاری سے متعلق تھی اور اس میں لیاری دکھایا بھی گیا تھا، اگرچہ بہت ہی کم حصہ لیاری میں فلمایا گیا تھا کیوں کہ عدنان سرور کے مطابق اس وقت لیاری میں حالات کشیدہ تھے اور انہیں وہاں جانے سے اجتناب کرنے کا مشورہ دیا گیا تھا۔ اس وجہ سے عدنان سرور نے وہاں کے درجنوں افراد کو ٹرین کے ذریعے لاہور بلواکر لاہور میں لیاری بسایا تھا۔ عدنان سرور کے مطابق اس سلسلے میں لیاری باکسنگ ایسوسی ایشن اور لیاری فلم میکرز سوسائیٹی نے ان سے کافی تعاون کیا تھا۔ یہ فلم 2014 چودہ میں فلمائی گئی تھی اور اگست 2015 میں نمائش کے لیے پیش کی گئی تھی۔ عدنان سرور کا کہنا ہے کہ لیاری کراچی بلکہ پاکستان کا ہی ایک بہت منفرد علاقہ ہے، ایسا کلچر پاکستان میں کہیں اور نہیں۔ یہ فلم 85 لاکھ روپے کے انتہائی قلیل بجٹ میں بنائی گی تھی، اور اس نے باکس آفس پر ایک کروڑ سے کچھ اوپر بزنس کیا تھا۔ اس لحاظ سے یہ باکس آفس پر تو ناکام رہی تھی، لیکن عدنان سرور کی محنت اور ان کی استقامت کی داد ضرور دی گئی تھی۔ فلم کا بجٹ ایک کروڑ 25 لاکھ تھا، لیکن رائلٹی کی مد میں رقم دینے کے بعد جو فلم کے لیے رقم بچی وہی بتائی گئی ہے۔ اس فلم کا دورانیہ ایک گھنٹہ 49 منٹ ہے، اور یہ فلم یوٹیوب پر مفت موجود ہے۔ چوہدری (24 جون، 2022) یہ فلم کراچی پولیس کے چوہدری محمد اسلم خان کی زندگی پر مبنی ہے۔ جی وہی چوہدری اسلم جن کا کردار بالی وڈ کی فلم دھرندر میں دکھایا گیا ہے، اور اسے سنجے دت نے ادا کیا ہے۔ پاکستانی فلم ’چوہدری‘ فلم ساز اور پروڈیوسر  نیہا لاج کی کاوش تھی جس میں ان کا بےتحاشہ پیسہ اور محنت صرف ہوئی اور حالات کی وجہ سے بجٹ چار کروڑ سے بڑھ کر سوا آٹھ کروڑ پر پہنچ گیا۔ یہ فلم 2018 میں چوہدری اسلم کی بیوہ سے باقاعدہ اجازت لے کر بنانا شروع کی گئی تھی، پھر جب یہ تقریباً تیار ہی تھی تو اس وقت اس میں اہم کردار کرنے والی زارا عابد کا پی آئی اے کے طیارے کے ایک حادثے میں انتقال ہوگیا۔ یہ وہی طیارہ تھاجو کراچی ائیرپورٹ سے کچھ دور ماڈل کالونی کے علاقے میں گر کر تباہ ہوگیا تھا۔ بعد میں زارا عابد کی جگہ نوال سعید کو کاسٹ کرکے وہ تمام سین دوبارہ فلمانے پڑے جس سے فلم کا بجٹ بہت زیادہ ہوگیا۔ اس فلم میں لیاری گینگ وار اور چوہدری اسلم خان کے اسے ختم کرنے کے واقعات دکھائے گئے ہیں، اور اسے لیے اس فلم کو لیاری کی گلیوں میں کافی زیادہ فلمایا گیا ہے۔ اس فلم کے ہدایت کار ابتدا میں عظیم سجاد تھی، لیکن وہ بعد میں الگ ہوگئے تھے اور اس فلم کو نیہا لاج نے خود ہی مکمل کیا تھا۔ اس فلم میں چوہدری اسلم کا کردار طارق اسلام نے ادا کیا جو خود بھی پولیس افسر رہے ہیں۔ شمعون عباسی، یاسر حسین، عدنان شاہ ٹیپو سمیت کئی نامور ادا کار اس فلم کا حصہ تھے۔ اس فلم کا دورانیہ دو گھنٹے 12 منٹ ہے، اور یہ فلم اگر آپ چاہیں تو وڈلی ڈاٹ ٹی وی پر دیکھ سکتے ہیں۔ پروڈیوسر نیہا لاج کے مطابق یہ فلم باکس آفس پر صرف تقریباً ایک کروڑ 25 لاکھ روپے کا بزنس کرسکی تھی۔ دودا (دو ستمبر، 2022) یہ بلوچی زبان میں پاکستان کی پہلی فیچر فلم تھی، جسے عادل بزنجو نے بنایا تھا اور اس کے پروڈیوسر عمران ثاقب اور حبیب حسن ہیں۔ عادل بزنجو کے مطابق فلم کی تقریباً 80 فیصد عکاسی لیاری میں کی گئی تھی۔ لیاری کی گلیوں، تنگ و تاریک گوشوں اور ماحول کو حقیقی روپ میں دکھایا گیا تھا۔ چوں کہ گلیوں میں ہجوم دکھانا مقصود تھا تو جب بجلی چلی جاتی تھی تب شوٹنگ کی جاتی تھی تاکہ لوگ اس وقت باہر موجود ہوں، اس طرح ہجوم کو دکھایا جاتا تھا۔ یہ فلم نومبر 2017 میں بننی شروع ہوئی تھی، اور جنوری 2019 میں اس کا کیمرا بند کیا گیا تھا۔ یہ فلم کرونا کی عالمی وبا کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہوئی ورنہ 2020 میں اسے پیش کردیا جاتا۔ فلم کی کہانی لیاری کے ایک باکسر کی ہے جو اپنا کیریئر باکسنگ میں بنانا چاہتا ہے۔ دو گھنٹے 32 منٹ دورانیے کی فلم دودا، بلوچی زبان میں تو یوٹیوب پر موجود ہے، جب کہ اس کا اردو ڈب ورژن پاکستانی پورٹل وڈلی پر موجود ہے۔ عادل بزنجو کے مطابق فلم دودا تقریباً 75 لاکھ روپے میں بنائی گئی تھی اور اس نے تقریباً اتنا ہی باکس آفس پر کمایا تھا۔ یہ فلم بلوچی زبان کی پہلی فلم ہونے کی وجہ سے یادگار رہے گی۔ یاد رہے کہ پاکستان میں بلوچی زبان کی پہلی فلم انور اقبال نے ہمل و مہ گنج 1976 میں بنائی تھی مگر وہ سینیما میں پیش نہیں کی جاسکی تھی کیوں کہ اس وقت کے بلوچ قوم پرستوں نے اسے بلوچ ثقافت کے خلاف قرار دے دیا تھا۔ ہمل و مہ گنج 2017 میں بلوچ کلچرل ڈے کے موقع پر آرٹس کونسل میں دکھائی گی تھی، تاہم سینیما میں پھر بھی نہیں لگی تھی۔ وڈلی ڈاٹ ٹی وی ایک پاکستان پورٹل ہے اور یہاں پر بہت کم پیسوں سبسکرائب کرکے بہت سے پاکستانی فلمیں دیکھی جاسکتی ہیں۔ دادل (22 اپریل، 2023 عیدالفطر) لیاری کی گلیوں میں جنم لینے والی یہ ایکشن تھرلر کہانی کو نسبتاً زیادہ توجہ ملی تھی کیونکہ ایک تو یہ عید پر ریلیز ہورہی تھی، دوسرے اس کا مرکزی کردار ایک بڑا نام سونیا حسین ادا کررہی تھیں۔ یہ فلم علی سجاد شاہ المعروف ابو علیحہ نے لکھی اور اس کی ہدایات دی تھیں جبکہ یہ نیہا لاج کی پروڈکشن تھی۔ یہ ایک کم بجٹ کی فلم تھی جس کا کُل بجٹ نیہا لاج کے مطابق بجٹ تین کروڑ روپے رکھا گیا تھا اور یہ سوا تین کروڑ میں مکمل ہوگئی تھی۔ ایک لیڈی باکسر جو حالات کی وجہ سے سیریل کلر بن جاتی ہے، اس میں کئی جذباتی اور اچھے مناظر تھے اور خاص کر سونیا حسین کی اداکاری کو بہت پسند کیا گیا تھا۔ یہ فلم تقریباً لیاری ہی میں شوٹ کی گئی تھی۔ ہدایت کار ابو علیحہ کے مطابق فلم کو سینسر بورڈ کے مسائل کو مد نظر رکھتے ہوئے لیاری گینگ وار اور سے منسلک کہانیاں تھیں جو اگر چل جاتی تو دوسرا تیسرا اور چوتھا حصہ بھی بنتا۔ ابو علیحہ کے مطابق فلم کا نام دادل اس لیے رکھا تھا کیوں کہ دادل رحمان ڈکیٹ کے والد کا نام تھا، اور لوگوں نے بتایا تھا کہ لیاری میں تشدد کا یہ سلسلہ ان کے زمانے میں شروع ہوا تھا۔ ایک گھنٹہ اور 38 منٹ کی یہ یہ فلم باکس آفس پر صرف 88 لاکھ روپے ہی کماسکی اور اس فلم کو اگر آپ دیکھنا چاہتے ہیں تو یہ بھی وڈلی ڈاٹ ٹی وی پر موجود ہے۔ مداری (29 جون 2023، عید الاضحیٰ) مداری نامی فلم نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس کے فارغ التحصیل طلباء نے بنائی تھی، جس کا بیشتر حصہ لیاری میں ہی فلمایا گیا تھا۔ یہ کراچی میں ہونے والے سیاسی تشدد اور نقصِ امن کے پس منظر میں بنائی گئی تھی۔ اس فلم کی شوٹنگ اگرچہ کرونا سے پہلے کرلی گئی تھی، لیکن پوسٹ پروٖڈکشن میں مالی وسائل کی وجہ سے کافی عرصہ لگ گیا۔ اس فلم میں کوئی نامور اداکار نہیں تھا، اس لیے اس کے پروڈیوسر علی رضوی کے مطابق انہیں کوئی ڈسٹری بیوٹر نہیں مل سکا اور انہوں نے یہ فلم خود ہی ریلیز کردی۔ اس فلم کو پنجاب کے کسی سینیما گھر میں نہیں لگایا جاسکا تھا، اور یوں اس فلم کو کافی مالی نقصان بھی جھیلنا پڑا۔ مداری سوا کروڑ میں تیار ہوئی تھی، اور علی رضوی کے مطابق شوٹ تو کرلی تھی، پھر جیسے جیسے پیسے آتے گئے، پوسٹ پروڈکشن پر کام کرتے گئے، اس لیے ریلیز میں کافی وقت لگا۔ اس فلم کا باکس بہت کم رہا تھا۔ ایک گھنٹہ اور 42 منٹ پر محیط یہ فلم یوٹیوب پر مفت دیکھی جاسکتی ہے۔ میرا لیاری (جنوری 2026) حال ہی میں دھرندر کے مقابلے میں پاکستان کے صوبہ سندھ کے سینیئر صوبائی وزیر برائے اطلاعات و نشریات شرجیل انعام میمن نے ’میرا لیاری‘ کے نام سے فلم ریلیز کرنے کا اعلان کیا ہے۔ سماجی رابطے کی سائٹ ایکس پر اپنے پیغام میں ان کا کہنا تھا کہ دھرندھر فلم پاکستان کا منفی چہرہ دکھانے کے پروپیگنڈے کی کڑی ہے، جس میں لیاری کو ہدف بنایا گیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ اگلے ماہ لیاری کا اصل کلچر دکھانے کیلیے ’میرا لیاری‘ کے نام سے فلم ریلیز کی جائے گی۔ ’میرا لیاری‘ کا پہلے نام ’بہناز‘ تھا، اور یہ آج کے لیاری کی کہانی ہے جہاں امن ہے، پیار ہے، سکون ہے، کھیل ہیں۔ اس فلم کے مصنف و ہدایت کار علی سجاد شاہ المعروف ابو علیحہ ہیں، جن کا کہنا ہے کہ یہ دو لڑکیوں کی کہانی ہے جو فٹبال کھیلنا چاہتی ہیں، اور ان کی راہ میں جو رکاوٹیں ہیں, پھر لیاری سے ہی تعلق رکھنے والی فٹ بال کوچ کیسے ان کی رہنمائی کرتی ہے ان کا کہنا تھا کہ مقصد یہی ہے کہ جن بچیوں کے والدین اپنی بیٹیوں کے ساتھ کھڑے ہوجائیں وہ کبھی نہیں ہارتی ہیں۔ ان کہنا تھا کہ وہ اس فلم کو دنیا بھر کے فلم فیسٹیولز میں دکھانا چاہتے ہیں تاکہ جو ایک اعتراض کیا جاتا ہے کہ پاکستان سے صرف منفی کہانیاں ہی باہر جاتی ہیں  اس کا ازالہ کیا جاسکے اور پاکستانی معاشرے کا ایک مثبت پہلو دکھایا جاسکے۔ اس فلم کی ایگزیکٹیو پروڈیوسر عائشہ عمر ہیں، جو اس فلم میں مرکزی کردار بھی نبھا رہی ہیں جب کہ اسے وقاص حسن رضوی اور ثانیہ سہیل نے پروڈیوس کیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق یہ ایک گھنٹہ 36 منٹ کی فلم ہے۔مرکزی کرداروں میں دنانیر مبین، عائشہ عمر، سمیعہ ممتاز اور نیر اعجاز شامل ہیں۔ مزید پڑھ اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field) ذرائع کے مطابق یہ فلم 23 جنوری کو سنیما گھروں میں پیش کی جائے گی، جسے ہم ٹی وی کی جانب سے ڈسٹری بیوٹ کیا جارہا ہے، تاہم ابھی اس کا باضابطہ اعلان نہیں کیا گیا ہے۔ یہاں اس حقیقت کا اعتراف ضروری ہے کہ مذکورہ بالا فلمیں تکنیکی لحاظ سے بہت اعلیٰ معیار کی نہیں تھیں، کم ترین بجٹ میں تیار ہونے کی وجہ سے یہ اس نفاست سے محروم تھیں جو جدید سینیما کی ضرورت ہے۔ ان فلموں میں کیمرہ ورک میں جھول نظر آتا ہے، تو کہیں ساؤنڈ، ایڈیٹنگ اور پوسٹ پروڈکشن کے مراحل میں وہ خامیاں صاف دکھائی دیتی ہیں جو فلم بینی کے تجربے کو متاثر کرتی ہیں۔ لیکن ان فلموں  کا وجود ان کے معیار سے بڑھ کر ہے۔ ان فلم سازوں کا مقصد کمرشل بلاک بسٹر دینا نہیں تھا، بلکہ اپنی کہانی اپنی انداز میں سنانے کی دُھن تھی۔ یہ فلمیں اس خام مال کی مانند تھیں کہ جنہیں اگر درست رہنمائی اور سرمایہ ملتا تو شاید آج پاکستانی سینیما کی پہچان ہوتیں۔ لہٰذا، انہیں دیکھتے وقت ہمارا معیارِ تنقید ان کا بجٹ اور ان کے معاشی حالات ہونے چاہییں، نہ کہ کروڑوں بلکہ اربوں روپے میں بننے والی بالی وڈ فلمیں۔ اب بھی وقت ہے کہ پاکستانی اپنی کہانیوں کے لیے بیرون ملک کی مہر لگنے کا انتظار کرنا چھوڑ دیں۔ اپنے فلم سازوں کی ہمت بڑھائیں۔ یہ سمجھنا ہوگا کہ سینیما صرف چکاچوند کا نام نہیں، یہ اپنی پہچان کے تحفظ کی ایک جنگ بھی ہے، اور اس جنگ میں یہ فلم ساز اپنے نامکمل ہتھیار تھامے میدان میں موجود ہیں۔ فلم انڈسٹری لیاری کراچی بلاک بسٹر فلمیں اگر درست رہنمائی اور سرمایہ مل جاتا تو شاید آج یہ فلمیں پاکستانی سینیما کی پہچان ہوتیں۔ حسن کاظمی سوموار, دسمبر 22, 2025 - 09:45 Main image:

کراچی کا علاقہ لیاری جس کا انڈین فلم دھرندھر میں منفی انداز میں تذکرہ کیا گیا ہے (انڈپینڈنٹ اردو)

فلم type: news related nodes: کیا لیاری واقعی وہی ہے جو فلم ’دھرندھر‘ میں دکھایا گیا؟ دھرندھر: انڈیا نے رحمان ڈکیٹ کو گلمیرائز کرنے پر کروڑوں لگا دیے فلم دھرندھر کے خلاف انڈین ایجنٹ کے اہل خانہ ہی عدالت پہنچ گئے بالی وڈ کی گمشدہ فلمیں: آگ، سازش اور وزن کے بھاؤ فروخت ہونے والی ریلیں SEO Title: دھرندر سے پہلے لیاری پر بنی پاکستانی فلمیں copyright: show related homepage: Hide from Homepage