جی سی یونیورسٹی فیصل آباد کے حال ہی میں ہونے والے کونووکیشن میں طلبا و طالبات کو اسناد دی گئیں جن میں ایک ماں اور ان کی بیٹی بھی شامل تھیں جنہیں ایک ساتھ ڈگری سے نوازا گیا۔ ڈاکٹر سدرہ وحید اور ان کی بیٹی وداد وحید نے باالترتیب انگلش لٹریچر میں پی ایچ ڈی، اور سائیکالوجی کے بی ایس کی ڈگری حاصل کی۔ علاوہ ازیں وداد وحید کو سائیکالوجی کلاس میں اول آنے پر گولڈ میڈل سے بھی نوازا گیا۔ وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر رؤف اعظم نے نمایاں کارکردگی دکھانے والے 335 طلبہ کو گولڈ میڈلز، 333 کو سلور میڈلز اور 326 کو براؤن میڈلز سے نوازا جبکہ پی ایچ ڈی کے 250 سکالرز نے اپنے سپروائزرز کے ہمراہ اسٹیج پر آ کر ڈگریاں حاصل کیں۔ جی سی یونیورسٹی فیصل آباد کا یہ بارہواں کونووکیشن تھا، اس موقعے پر اپنے منفرد اعزاز کے حوالے سے وداد وحید نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ یہ ان کے لیے بہت یادگار اور اچھا دن تھا جسے وہ پوری زندگی نہیں بھلا پائیں گی۔ ’میرے نانا جان بھی اسی موقع پر موجود تھے تو وہ لمحہ ہمارے لیے ایک بڑی یادگار بن گیا کہ ہم تین نسلوں نے ایک ساتھ یہ اعزاز حاصل کیا۔‘ انہوں نے بتایا کہ ان کے کلاس فیلوز اور ٹیچرز میں سے زیادہ تر کو تو ڈگری کے اختتام پر ہی یہ پتا چلا کہ ان کی والدہ بھی اسی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کر رہی ہیں جو کہ جی سی ویمن یونیورسٹی فیصل آباد میں اسسٹنٹ پروفیسر اور شعبہ انگریزی کی انچارج ہیں۔ ’میری کوشش تھی کہ اگر پہلے پتا چل گیا تو پھر تعصب آ جاتا ہے، لوگ یہ سوچنے لگتے ہیں کہ ٹیچر کی بیٹی ہے، تو میری یہ کوشش ہوتی تھی کہ کم سے کم لوگوں کو پتا چلے، میرے زیادہ تر اساتذہ کو بھی کانووکیشن والے دن ہی پتا چلا کہ میری والدہ بھی پی ایچ ڈی کر رہی تھیں۔‘ انہوں نے بتایا کہ وہ اس وقت پنجاب یونیورسٹی سے ماسٹرز کر رہی ہیں اور اس کے بعد ان کا ارادہ ہے کہ عملی طور پر بطور سائیکالوجسٹ پریکٹس کریں۔ انہوں نے بتایا کہ انہیں اس بات کی خوشی ہے کہ ان کی والدہ نے اپنی تعلیم ادھوری نہیں چھوڑی اور اپنے ساتھ ساتھ ان کی تعلیم پر بھی پوری توجہ دی۔ ’چیلنجز تو بہت سارے ہوتے ہیں، ڈیڈ لائنز پوری نہیں ہو رہی ہوتیں، بعض اوقات سمجھ نہیں آ رہی ہوتی کہ کیسے کرنا ہے، حالانکہ میری والدہ کا شعبہ مختلف ہے لیکن پھر بھی وہ مجھے کافی سپورٹ کر دیتی تھیں، تجاویز دے دیتی تھیں اور سائیکالوجی کی فیلڈ میں بھی ان کے مشورے میرے لیے کافی مددگار ثابت ہوئے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ جہاں والدین بچوں کو سپورٹ کرتے ہیں وہیں والدین کو بھی بچوں کی طرف سے اتنی ہی توجہ اور سپورٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔ ڈاکٹر سعدیہ وحید نے انڈپینڈنٹ اردو کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ جس وقت انہوں نے پی ایچ ڈی شروع کی تھی تو ان کی بیٹی کالج میں تھی۔ ’ہماری ٹائم لائن مختلف تھی لیکن آخر میں جب میں تھیسس جمع کروا کے، ڈیفنس کا مرحلہ طے کر کے ڈگری تک پہنچی ہوں تو اس وقت میری بیٹی بھی اپنی بیچلر کی ڈگری مکمل کر چکی تھیں اور ہم دونوں نے پھر ایک ہی کانووکیشن میں، جو ابھی حال ہی میں ہوا ہے، اس میں ڈگری حاصل کی ہے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ یہ دن ان کے لیے اس وجہ سے بھی یادگار ہے کہ اس وقت ان کے والد بھی وہاں موجود تھے۔ ’یہ بہت ہی خوشی اور فخر کا لمحہ تھا ہمارے لیے کہ تین نسلیں وہاں پر موجود تھیں اور اس خوشی کو ہم نے اکٹھے منایا۔‘ ان کا کہنا تھا کہ اس تمام عرصے میں اگر انہیں اپنے گھر والوں کا تعاون حاصل نہ ہوتا تو شاید وہ یہ نہ کر سکتیں۔ ’سب سے پہلے میرے والدین، اس کے بعد میرے خاوند، اور حتیٰ کہ میرے بچے اور جتنے بھی فیملی ممبر تھے، میں بہت خوش قسمت ہوں کہ سب نے میری بہت سپورٹ کی ہے اور ہر کسی نے میرا ساتھ دیا ہے۔ اگر فیملی میں انڈرسٹینڈنگ نہ ہوتی تو ہم اس اسٹیج پر کبھی بھی نہیں پہنچ سکتے تھے۔‘ مزید پڑھ اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field) ان کا کہنا تھا کہ ملازمت، گھر کی ذمہ داریوں، بچوں کی تعلیم اور دیگر مصروفیات کو دیکھتے ہوئے کئی دفعہ انہیں یہ محسوس ہوا کہ وہ اپنی پی ایچ ڈی مکمل نہیں کر سکیں گی۔ ’اس موقع پر میری فیملی نے، میرے سپروائزر نے اور میرے ٹیچرز نے سب نے مجھے بہت سپورٹ کیا اور میں یہ لازمی کہوں گی کہ میرے سپروائزر نے مجھے بہت رہنمائی دی اور اس کے ساتھ ساتھ ٹیچرز، ڈیپارٹمنٹ کے چیئرپرسن، انہوں نے جس طرح سے مجھے گائیڈ کیا، حوصلہ افزائی کی، ہمت بندھائی، میں سمجھتی ہوں کہ وہ میرے لیے بہت بڑی سپورٹ تھی۔‘ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں بہت ساری لڑکیوں کی نوعمری میں شادی ہو جاتی ہے اور اس کے بعد ان کے لیے تعلیم کے مواقع محدود ہو جاتے ہیں۔ ’بعض اوقات بچیوں کو آگے پڑھنے کا موقع نہیں ملتا، کچھ مالی مسائل ہو جاتے ہیں، کچھ بچیاں خود بھی ہمت ہار جاتی ہیں لیکن پڑھائی بہت ضروری ہے۔ ایک پڑھی لکھی ماں ہی قوم کی اچھے سے تربیت کر سکتی ہے۔ خواتین کا پڑھنا بہت ضروری ہے کیونکہ انہوں نے بچوں کی تربیت کرنی ہے اور یہ انہی پر ذمہ داری آتی ہے، اگر خود آگاہی ہو گی تو وہ بچوں کو بھی کچھ سکھا سکیں گی۔‘ انہوں نے کہا کہ وہ اپنے تجربے کی بنیاد پر سب کو یہی مشورہ دیں گی کہ پڑھائی کی کوئی عمر نہیں ہوتی بلکہ آپ کسی بھی عمر میں پڑھ سکتے ہیں۔ ’اب تو آن لائن ریسورسز بہت زیادہ ہیں، آپ اگر کوئی یونیورسٹی جوائن نہیں کر سکتے، کسی کالج میں نہیں جا سکتے تب بھی آپ آن لائن انٹرنیٹ کے ذریعے تعلیم حاصل کر سکتے ہیں، آپ کورس کر سکتے ہیں، آپ گوگل کر سکتے ہیں۔‘ فیصل آباد ڈگری پی ایچ ڈی ڈاکٹر سدرہ وحید اور ان کی بیٹی وداد وحید نے علی الترتیب انگلش لٹریچر میں پی ایچ ڈی، اور سائیکالوجی کے بی ایس کی ڈگری حاصل کی۔ علاوہ ازیں وداد وحید کو سائیکالوجی کلاس میں اول آنے پر گولڈ میڈل سے بھی نوازا گیا۔ نعیم احمد منگل, دسمبر 23, 2025 - 10:15 Main image: خواتین jw id: wKMkQIAo type: video related nodes: پی ایچ ڈی کا گاؤن جو شادی کے سرخ جوڑے سے زیادہ پیارا لگا فرانس سے پی ایچ ڈی کرنے والا پروفیسر قبائلی جھگڑے میں قتل پی ایچ ڈی ڈاکٹر جو ملازمت سے زیادہ لنڈے کے کاروبار سے کماتے ہیں لندن یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی داخلہ لینے والی خواجہ سرا سارو SEO Title: فیصل آباد: ایک ساتھ ڈگری حاصل کرنے والی ماں اور بیٹی کی کہانی copyright: show related homepage: Hide from Homepage