مصنوعی ذہانت 2026 میں تیل کی طلب میں اضافے کا سبب بن سکتی ہے؟

جیسا کہ توقع کی جا رہی تھی، بین الاقوامی توانائی ایجنسی اور انرجی انفارمیشن ایڈمنسٹریشن نے 2026 کے دوران عالمی سطح پر تیل کی طلب میں اضافے کی پیش گوئی کی ہے۔ دونوں عالمی اداروں نے اپنی پیش گوئیوں میں تقریباً ایک لاکھ بیرل یومیہ کا اضافہ کیا ہے۔ بین الاقوامی توانائی ایجنسی نے اب تیل کی طلب میں 0.9 ملین بیرل یومیہ اضافے کی پیش گوئی کر رہی ہے جبکہ انرجی انفارمیشن ایڈمنسٹریشن کے مطابق یہ اضافہ 1.2 ملین بیرل یومیہ ہو سکتا ہے۔ دوسری جانب اوپیک نے اپنا تخمینہ برقرار رکھتے ہوئے 1.4 ملین بیرل یومیہ اضافے کا اندازہ دیا ہے۔ ایسے شواہد موجود ہیں جو اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ عالمی تیل کی طلب انرجی انفارمیشن ایڈمنسٹریشن اور اوپیک کے اندازوں کے درمیان بڑھے گی، تاہم ایک ایسا منظرنامہ بھی ہے جو طلب کے اوپیک کے اندازوں پر پورا اتر سکتا ہے۔ یہ منظرنامہ بجلی کی طلب میں موجود رجحانات سے جڑا ہے۔ سوال یہ ہے کہ تیل کی طلب کا بجلی کی پیداوار سے کیا تعلق ہے؟ ابتدائی طور پر یہ واضح ہے کہ بجلی کے شعبے میں تیل کا استعمال بہت محدود ہے اور یہ عالمی تیل کی طلب کا تقریباً چار فیصد یا اس سے بھی کم ہے۔ یہ استعمال زیادہ تر تیل پیدا کرنے والے ممالک، دور دراز علاقوں اور غریب ممالک تک محدود ہے۔ انڈیا اور چین جیسی بڑی معیشتوں میں بجلی پیدا کرنے میں تیل کا کردار نہایت معمولی ہے اور بیشتر ممالک میں یہ ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ ماحولیاتی، معاشی اور تزویراتی وجوہات کی بنا پر توقع ہے کہ بجلی کے شعبے میں تیل کا کردار مزید کم ہو گا اور اس کی جگہ گیس اور قابل تجدید توانائی لے گی۔ پاکستان نے روس سے 75 ہزار میٹرک ٹن کا آڈر اپریل کے آخر میں بک کیا تھا (اے ایف پی) دوسرے لفظوں میں، اگر یورپی ممالک، انڈیا اور چین ہوا اور شمسی توانائی کی پیداواری صلاحیت کو دوگنا بھی کر دیں تو بھی اس کا تیل کی طلب پر اثر نہ ہونے کے برابر ہو گا۔ اگرچہ تیل کی طلب میں اضافے کے اندازوں میں اختلاف ہے لیکن اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ تیل کی طلب میں زیادہ تر اضافہ ابھرتی اور ترقی پذیر معیشتوں سے آئے گا۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ بین الاقوامی توانائی ایجنسی اب بھی او ای سی ڈی ممالک، خاص طور پر یورپ، میں تیل کی طلب کے حوالے سے محتاط بلکہ مایوس کن اندازہ رکھتی ہے جہاں وہ منفی نمو کی توقع کر رہی ہے، حالانکہ زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں۔ تاریخی اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ بین الاقوامی توانائی ایجنسی نے مسلسل امریکی تیل کی طلب کو کم کر کے دکھایا ہے، خاص طور پر رواں سال، جب اس نے دو مرتبہ اپنے اندازے اوپر کی جانب درست کیے۔ اسی لیے امکان ہے کہ او ای سی ڈی ممالک، بالخصوص یورپ، میں تیل کی طلب کی حقیقی نمو ایجنسی کے اندازوں سے زیادہ ہو گی۔ آج کے کالم کا مرکزی خیال یہ ہے کہ ایک ایسا ممکنہ منظرنامہ موجود ہے جس میں تیل کی طلب زیادہ تر اندازوں، بلکہ شاید سبھی اندازوں سے بھی بڑھ سکتی ہے۔ اس کی وجہ مصنوعی ذہانت اور ڈیٹا سینٹرز کی جانب سے بجلی کی تیزی سے بڑھتی ہوئی طلب ہے، جو بجلی گھروں کی پیداواری صلاحیت سے تجاوز کر سکتی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ اے آئی کمپنیوں کی بجلی کی طلب بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے جبکہ بجلی فراہم کرنے والی کمپنیاں کئی وجوہات کی بنا پر اتنی تیزی سے نئے بجلی گھر تعمیر نہیں کر سکتیں۔ ان وجوہات میں اجازت نامے، قوانین، مالی وسائل، گیس کی ترسیلی بنیادی ڈھانچے کی مشکلات اور سب سے بڑھ کر گیس ٹربائن بنانے والی کمپنیوں کی محدود پیداواری صلاحیت شامل ہے۔ صورت حال یہ ہے کہ اگر آج کوئی کمپنی نئی گیس ٹربائن کا آرڈر دے تو اسے کم از کم تین سال انتظار کرنا پڑتا ہے۔ اس کا فوری حل کوئلے کے استعمال کی طرف واپسی اور موجودہ بجلی گھروں کی پیداوار میں اضافہ ہے مگر یہ بھی کافی نہیں۔ نئے جوہری توانائی کے منصوبوں کو مکمل ہونے میں کئی سال لگتے ہیں۔ تو پھر موجودہ وقت میں حل کیا ہے؟ حل یہ ہے کہ وہ کمپنیاں جو ہنگامی حالات کے لیے تیل سے چلنے والے پرانے بجلی گھر رکھتی ہیں، انہیں مستقل بنیادوں پر چلانا شروع کر دیں، جس سے تیل کی طلب میں اضافہ ہو گا۔ ایسے پرانے پاور پلانٹس کچھ یورپی ممالک اور امریکہ کے شمال مشرقی علاقوں میں موجود ہیں، جہاں آبادی زیادہ ہے۔ تاہم بہت سے علاقوں میں ایسے پلانٹس موجود ہی نہیں، تو وہاں کیا حل ہے؟ وہاں حل نجی بجلی پیداوار ہے۔ اس کے تحت کمپنیاں بڑے سائز کے جنریٹر خریدتی ہیں، جن میں سے ہر ایک کا حجم ایک درمیانے کمرے کے برابر ہوتا ہے، اور انہیں ڈیزل یا مائع گیس سے چلاتی ہیں۔ اگر دنیا بھر میں سینکڑوں یا شاید ہزاروں ایسے جنریٹر چلائے گئے تو اس سے عالمی تیل کی طلب اندازوں سے کہیں زیادہ بڑھ سکتی ہے۔ ماضی میں چین اور امریکہ میں بجلی کی قلت کے دوران ایسا ہو چکا ہے۔ مزید پڑھ اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field) اس منظرنامے کا ایک اہم نتیجہ یہ ہو گا کہ نہ صرف تیل کی مجموعی طلب بڑھے گی بلکہ وہ بڑا متوقع فاضل ذخیرہ بھی کم ہو جائے گا جس کی پیش گوئی بین الاقوامی توانائی ایجنسی اور اس کے حامی کرتے ہیں۔ خاص طور پر او ای سی ڈی ممالک کی منڈیوں، بالخصوص امریکہ اور یورپ میں، تیل کے استعمال میں اضافے کے ذریعے۔ یہ براہ راست ایجنسی کے اس بیانیے کے خلاف ہے کہ او ای سی ڈی ممالک میں تیل کی طلب کم ہو رہی ہے۔ دوسرے لفظوں میں، یہ منظرنامہ بین الاقوامی توانائی ایجنسی کی پیش گوئیوں کو دو حوالوں سے چیلنج کرتا ہے: ایک تو طلب کی سطح کے لحاظ سے، اور دوسرا یہ کہ یہ اضافہ صنعتی ممالک میں ہو گا۔ خلاصہ یہ ہے کہ 2026 کے لیے تیل کی منڈیوں کی صورت حال مایوس کن اندازوں کے مقابلے میں زیادہ مثبت ہے، تاہم اس سے قیمتوں میں نمایاں بہتری اسی صورت آئے گی جب توانائی کے شعبے میں تیل کے استعمال میں واضح اضافہ ہو۔ توقع ہے کہ 2026 کے دوران برینٹ خام تیل کی قیمتیں ساٹھ ڈالر فی بیرل کے آس پاس رہیں گی، اگرچہ اس حد کے اندر وقتی اتار چڑھاؤ ممکن ہے۔ دوسرے لفظوں میں، تیل کی قیمتوں میں بڑی گراوٹ کے حوالے سے مضبوط شواہد موجود نہیں ہیں، جیسا کہ بعض لوگ دعویٰ کرتے ہیں۔ وینزویلا کے تیل کی کمی کا اثر محدود ہے اور اس کا اثر مجموعی قیمتوں کے بجائے تیل کے معیار سے جڑی قیمتوں کے فرق پر زیادہ پڑتا ہے۔ روس پر مزید پابندیاں لاجسٹک معاملات کو ضرور پیچیدہ بنا سکتی ہیں مگر ان سے منڈی کے توازن میں بنیادی تبدیلی آنے کا امکان کم ہے اس لیے قیمتوں پر ان کا اثر بھی محدود ہی رہے گا۔ ایک بات طے ہے کہ اگر برینٹ کروڈ کی قیمت 70 ڈالر فی بیرل سے اوپر جاتی ہے تو چین اپنے بڑے ذخائر سے تیل نکالے گا جو اس نے ایران، روس اور وینزویلا سے کم قیمتوں پر خریدا ہوا ہے تاکہ قیمتوں میں اضافے کو روکا جا سکے۔ تاہم امریکہ اور چین کے درمیان اگر کوئی جامع اور دیرپا تجارتی معاہدہ طے پا جاتا ہے تو اس کا اثر بہت زیادہ مثبت ہو گا اور تیل کی طلب میں نمایاں اضافہ ہو سکتا ہے ۔ اس صورت میں چین کی جانب سے اپنے ذخائر سے تیل نکالنے کا اثر تجارتی معاہدے کی عدم موجودگی کی صورت حال کے مقابلے میں عارضی ہوگا۔ بشکریہ انڈپینڈنٹ عربیہ نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ تیل اوپیک عالمی منڈی مصنوعی ذہانت ڈیٹا سنٹرز بین الاقوامی توانائی اداروں کے مطابق 2026 میں تیل کی طلب میں اضافے کی توقع ہے مگر ماہرین کا کہنا ہے کہ مصنوعی ذہانت اور ڈیٹا سینٹرز کی بجلی کی ضروریات اس طلب کو اندازوں سے کہیں زیادہ بڑھا سکتی ہیں۔ انس بن فیصل الحجی بدھ, دسمبر 24, 2025 - 06:15 Main image:

چار جون 2023 کو جمہوریہ تاتارستان، روس میں المتیوسک کے باہر تیل کے پمپ جیکوں کو ایک منظر دکھا رہا ہے (روئٹرز)

نقطۂ نظر type: news related nodes: کرپٹو مائننگ کے لیے سستی بجلی کی تجویز آئی ایم ایف نے مسترد کر دی تیل پر امریکی پابندی، وینزویلا کا اصرار ’برآمدات متاثر نہیں ہوئیں‘ سعودی عرب کا ’اوپیک پلس‘ معاہدے کی پابندی کا عزم آئندہ دو برسوں میں تیل کی طلب میں اضافے کا اوپیک تخمینہ برقرار SEO Title: مصنوعی ذہانت 2026 میں تیل کی طلب میں اضافے کا سبب بن سکتی ہے؟ copyright: Translator name: عبدالقیوم show related homepage: Hide from Homepage