سمسٹر کا اختتام خاصہ ہنگامہ خیز ہوتا ہے۔ ایک طرف پروفیسر باقی ماندہ سلیبس اور ضروری اسائنمنٹس مکمل کروا رہے ہوتے ہیں، دوسری طرف پورا سمسٹر غائب رہنے والے طالب علم اچانک ظاہر ہونے لگتے ہیں اور پروفیسروں کے پیچھے پڑ جاتے ہیں۔ کسی کی حاضری کم ہے، کسی نے سمسٹر کے شروع میں کوئی اسائنمنٹ نہیں کی اور کوئی اپنی شدید مصروفیت کی وجہ سے پیپر نہیں دے سکا۔ کچھ طالب علم تو ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں کورس کا نام تک نہیں پتہ ہوتا۔ ایسے طالب علم ہر پروفیسر کے دفتر کو اپنا گھر سمجھ لیتے ہیں۔ صبح، دوپہر اور شام حاضری دیتے ہیں اور اپنے لیے رعایت مانگتے ہیں۔ مشاہدے کے مطابق زیادہ تر طلبہ سمسٹر کے درمیان سے بیمار ہونا شروع کر دیتے ہیں۔ کسی سمسٹر وہ خود بیمار نہ ہو سکیں تو اپنے گھر والوں کو بیمار کر دیتے ہیں۔ ایسے طلبہ یا ان کے گھر والوں کی ہسپتالوں میں کافی جان پہچان ہوتی ہے۔ ایسے بہانوں کے ساتھ یہ لمبی چوڑی طبی رپورٹس بھی پیش کر دیتے ہیں۔ اس کے بعد وہ انسانی حقوق کے جانے کس چارٹر کی روشنی میں اپنے لیے ایسی گنجائش پیدا کرنے کی فرمائش کرتے ہیں جو اگر پروفیسر مان لیں تو اگلے ہی دن بے روزگار ہو جائیں اور زندگی بھر کسی جامعہ میں ملازمت کے لیے نا اہل قرار پائیں۔ کچھ طلبہ ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں اپنی من پسند سہولت اپنی مرضی کے مطابق درکار ہوتی ہے۔ اس کے لیے وہ پروفیسروں سے بات کرنے کی بجائے اپنے گھر یا خاندان میں موجود کسی بڑے عہدے سے بات کرتے ہیں اور پھر کالوں کا ایک نا ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ ایسے معاملات میں عموماً دیکھا گیا ہے کہ درخواست سے لمبا عہدہ ہوتا ہے۔ سب سے پہلے بتایا جاتا ہے کہ مسٹر فلاں بن فلاں بات کر رہے ہیں، پھر وہ کسی طالب علم کا نام لیتے ہیں، اس سے اپنا یا کسی اور بڑے عہدے کا رشتہ بتاتے ہیں اور پھر اس طالب علم کی درخواست بتائی جاتی ہے۔ اس کے بعد ایک گزارش نما حکم آتا ہے جو ان کے مطابق پروفیسر کے لیے ماننا ضروری ہوتا ہے۔ پروفیسروں کے لیے لازم ہے کہ جب بھی انہیں ایسی کوئی کال موصول ہو وہ چپ چاپ پوری درخواست سنیں، عہدہ پوچھیں اور ٹھیک ہے کہہ کر فون رکھ دیں۔ اور پھر وہی کریں جو انہیں پالیسی کے مطابق کرنا چاہیے۔ کل مجھے بھی ایسا ہی ایک فون آیا۔ میرے کورس کا آخری لیکچر تھا۔ میں نے اس میں آخری کوئز لینا تھا۔ مجھے صبح ہی کال آ گئی۔ لمبے سے عہدے کے بعد کہا گیا کہ طالب علم کی طبعیت نا ساز ہے۔ وہ کلاس میں نہیں آ سکے گا۔ اس کا کوئز اس کی جامعہ واپسی پر لیا جائے۔ میں نے کال بند کر کے اپنی ای میل کھولی کہ شاید طالب علم نے پہلے خود ای میل کی ہو لیکن میرے ان باکس میں اس کی طرف سے کوئی ای میل موجود نہیں تھی۔ کوئز آن لائن تھا۔ کوئز ختم ہونے کے بعد نتائج دیکھنے پر معلوم ہوا کہ اس طالب علم نے گھر سے ہی کوئز کر دیا تھا۔ چونکہ اساتذہ کی ذمہ داریوں میں سے ایک ذمہ داری طلبہ کو اچھا شہری بنانا بھی ہوتا ہے۔ میں نے اپنی ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے اس کے حاصل شدہ نمبر حذف کیے اور رزلٹ جمع کروا دیا۔ مزید پڑھ اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field) ممکن ہے اس طالب علم کو ایسے لوگ ملتے رہے ہوں جو اس کے گھر والوں کے عہدے سن کر اس کے لیے سسٹم میں اس کی مرضی کی رعایت پیدا کرتے ہوں لیکن اسے پتہ ہونا چاہیے کہ اسے ایسے لوگ بھی مل سکتے ہیں جو اس کے گھر والوں کے عہدوں سے مرعوب نہیں ہوں گے۔ مہذب معاشروں میں عہدوں کے سہارے اپنے لیے رعایت حاصل کرنے کی کوشش کو غلط تصور کیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں بھی بظاہر ایسا ہی کہا جاتا ہے لیکن جہاں ہم مشکل میں پڑتے ہیں وہیں کسی نہ کسی عہدے کی مدد سے اپنا کام نکلوانے کی کوشش کرتے اور پھر اس پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ ہمیں طلبہ کے اس رویے کی حوصلہ شکنی کرنا چاہیے۔ انہیں پتہ ہونا چاہیے کہ جو کام وہ خود پروفیسر سے بات کر کے کر سکتے ہیں، اس کے لیے انہیں کسی بڑے عہدے یا اثر و رسوخ کے پیچھے چھپنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ان کا پہلا کام وہ ڈگری حاصل کرنا ہے جس کے لیے انہوں نے جامعہ میں داخلہ حاصل کیا ہے۔ اگر ان کی زندگی میں بہت مصروفیات ہیں تو انہیں اپنا سمسٹر فریز کروا کر تب واپس آنا چاہیے جب ان کے پاس ڈگری حاصل کرنے کا وقت ہو۔ یوں وہ اپنی تعلیمی سرگرمیوں کو زیادہ توجہ دے سکیں گے۔ لیکن اگر وہ عہدوں کے پیچھے چھپنے کی کوشش کریں گے تو ساری زندگی ان کے پیچھے ہی چھپے رہیں اور خود کچھ نہیں بن سکیں گے۔ طالب علم جامعہ تعلیمی ادارے اساتذہ تعلیم طلبہ kw پتہ ہونا چاہیے کہ جو کام وہ خود پروفیسر سے بات کر کے کر سکتے ہیں، اس کے لیے انہیں کسی بڑے عہدے یا اثر و رسوخ کے پیچھے چھپنے کی ضرورت نہیں۔ تحریم عظیم بدھ, دسمبر 24, 2025 - 06:30 Main image:
17 جنوری 2024 کو لی گئی اس تصویر میں میانوالی یونیورسٹی کیمپس میں طلبہ چہل قدمی کر رہے ہیں (اے ایف پی)
بلاگ type: news related nodes: یونیورسٹی کی زندگی: ملالہ کی کہانی پاکستانی طلبہ کے لیے سبق جامعات میں استاد اور طالب علم کا رشتہ کیوں بگڑ رہا ہے؟ ملتان میں طالب علم کے ’کسٹمائزڈ چپس‘ کی دھوم سکول کی کامیابی کے لیے طالب علم کی قربانی: انڈین پولیس SEO Title: میں فلاں بن فلاں بات کر رہا ہوں copyright: show related homepage: Hide from Homepage