ترکی میں سرکاری دورے کے دوران فوجی تعاون پر گفتگو کے بعد واپسی پر طیارے کے حادثے میں جان سے جانے والے لیبیا کے چیف آف جنرل سٹاف محمد علی احمد الحداد ملک کی فوجی اسٹیبلشمنٹ کو متحد کرنے کی کوشش کرنے والے کے طور پر جانے جاتے تھے۔ انسٹھ سالہ محمد علی احمد الحداد لیبیا کی اقوام متحدہ کی تسلیم شدہ حکومت کی فوج کے چیف آف جنرل سٹاف تھے۔ انہیں2021 میں اس وقت کے وزیراعظم فیاض السراج نے تعینات کیا تھا۔ 1987 میں وہ ملٹری اکیڈمی سے فارغ التحصیل ہوئے جبکہ 2011 میں قذافی حکومت کے خلاف لیبیا کے انقلاب میں انہوں نے حصہ لیا تھا۔ شمالی افریقی ملک 2011 میں معمر قذافی کی موت کے بعد سے دو حصوں میں منقسم ہے۔ ایک حصے کی قیادت وزیر اعظم عبدالحمید دبیبہ کر رہے ہیں اور دوسرے کی کمانڈر خلیفہ حفتر۔ یہ وہ ہی فیلڈ مارشل ہیں جنہوں نے دو روز قبل پاکستان کی مسلح افواج کے سربراہ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر سے ملاقات کی تھی اور روئٹرز کے مطابق جنگی سازوسامان فروخت کرنے کا معاہدہ کیا ہے۔ 2021 میں آرمی چیف کی تقرری سے قبل محمد الحداد سینٹرل ملٹری ریجن کے کمانڈر تھے اور شہر کی سب سے بڑی فوجی بٹالین کے کمانڈر بھی رہے۔ ان کا تعلق مغربی لیبیا کے شہر مصراتہ سے تھا۔ اس تصویر میں جنرل محمد علی الحداد کو لیبیا کے دارالحکومت طرابلس میں 2 اکتوبر 2018 کو دیکھا جا سکتا ہے (اے ایف پی) جب سے الحداد نے چیف آف سٹاف کا عہدہ سنبھالا، وہ اپنی موت کے اعلان تک مرحوم فوجی اسٹیبلشمنٹ کو متحد کرنے کے نمایاں حامیوں میں سے ایک تھے۔ یہ بات ان کے عہدہ سنبھالنے کے تین ماہ بعد واضح ہوئی جب الحداد نے مشرقی افواج کے چیف آف سٹاف عبدالرزاق الندھوری سے سرت (شمال) شہر میں ملاقات کی جسے مغربی اور مشرقی افواج کے درمیان تقسیم کو ختم کرنے کی کوشش سے تعبیر کیا گیا۔ مقامی طور پر، حداد نے ’5+5‘ مخلوط فوجی کمیٹی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، جس میں پانچ اراکین مغربی لیبیا میں فوجی اسٹیبلشمنٹ کی نمائندگی کرتے تھے اور پانچ خلیفہ حفتر کی قیادت میں مشرقی لیبیا کی افواج کی۔ اکتوبر 2020 میں جنیوا میں طے پانے والے جنگ بندی معاہدے پر عمل درآمد کی نگرانی کے ایک حصے کے طور پر، یہ کمیٹی برسوں سے اقوام متحدہ کے زیراہتمام عسکری ادارے کو متحد کرنے کے لیے بات چیت کر رہی ہے، جس کے تسلسل کی تصدیق کمیٹی کے گذشتہ اجلاسوں میں ہوئی تھی، جن میں سے آخری ایک سال قبل سرت شہر میں ہوا تھا۔ ترکی کے خبر رساں ادارے انادولو کے ایک نامہ نگار کے مطابق لیبیا کی فوجی اسٹیبلشمنٹ میں تقسیم کے باوجود الحداد نے دوسری طرف والوں کے خلاف کوئی بیان نہیں دیا ہے۔ مزید پڑھ اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field) الحداد وسیع عسکری تعلقات کے ذریعے لیبیا کی فوج کو مضبوط کرنے کے خواہاں تھے، خاص طور پر ترکی کے ساتھ، جہاں کے انہوں نے کئی سرکاری دورے کیے، جن میں اگست 2021 میں ایک دورہ بھی شامل تھا، جس میں ترکی کے بحری اور فوجی پروٹوکول مشن کے حصے کے طور پر لیبیا کے ساحل سے دور ایک ترک فریگیٹ کا دورہ بھی شامل تھا۔ 2023 میں، حداد نے لیبیا کے خصوصی دستوں کو تربیت دینے کے لیے اٹلی کے ساتھ ایک فوجی معاہدے میں حصہ لیا، اور جولائی 2024 میں اس نے امریکی افریقہ کمانڈ (AFRICOM) کے رہنماؤں سے ملاقات کی، جس میں اپنے ملک کے فوجی ادارے کو متحد کرنے اور سرحدی حفاظت کو مضبوط بنانے کے لیے تعاون حاصل کرنے کی کوشش کی۔ آخری سٹاپ حداد کی وہ چمک انقرہ سے واپسی پر ایک المناک حادثے میں متعدد ساتھیوں کے ساتھ بجھ گئی۔ الدبیبہ نے ان کی موت کو ’یہ عظیم سانحہ قوم، عسکری ادارے اور تمام لوگوں کے لیے ایک بہت بڑا نقصان ہے، کیونکہ ہم نے ایسے افراد کھو دیے ہیں جنہوں نے خلوص اور لگن کے ساتھ اپنے ملک کی خدمت کی اور نظم و ضبط، ذمہ داری اور قومی عزم کی مثال تھے۔‘ لیبیا کی قومی اتحاد کی حکومت نے بھی ملک بھر میں تین روزہ سرکاری سوگ کا اعلان کیا ہے اور کہا ہے کہ اس کے سربراہ عبدالحمید دبیبہ نے وزارت دفاع کو ہدایت کی ہے کہ وہ ایک سرکاری وفد انقرہ بھیجے تاکہ اس واقعے کے حالات کا جائزہ لیا جا سکے۔ لیبیا فوج ترکی فضائی حادثہ لیبیا کی فوجی اسٹیبلشمنٹ میں تقسیم کے باوجود مرحوم الحداد نے دوسری طرف والوں کے خلاف کوئی بیان نہیں دیا ہے۔ انڈپینڈنٹ اردو بدھ, دسمبر 24, 2025 - 12:00 Main image:
اپنی موت سے چند گھنٹے قبل انقرہ میں 23 دسمبر 2025 کو فوجی پریڈ سے گارڈ آف آنر لیتے ہوئےلیبیا کے چیف آف جنرل سٹاف محمد علی احمد الحداد (اے ایف پی)
میری کہانی jw id: 0g62H8gr type: video related nodes: ترکی میں فضائی حادثہ: لیبیا کی فوج کے سربراہ سمیت سینیئر افسران جان سے گئے لیبیا کے عازمِ حج کو نہ لے جانے والا جہاز دو بار خراب لیبیا: ’پتہ ہوتا بیٹا غیرقانونی طور پر باہر جا رہا ہے تو نہ جانے دیتا‘ سوات: نو سالہ قاری جو لیبیا سے خصوصی انعام لے کر لوٹا SEO Title: لیبیا کے مرحوم چیف آف جنرل سٹاف محمد علی احمد الحداد کون ہیں؟ copyright: show related homepage: Hide from Homepage