پی آئی اے کی نجکاری : 10 سوالات

پی آئی اے کی نجکاری نے چند اہم سوالات کو جنم دیا ہے۔ سیاسی عصبیت سے بالاتر ہو کر ان سوالات پر غور کرنا چاہیے۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ قومی اثاثوں کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ کرنے سے پہلے اسے پارلیمان میں زیر بحث کیوں نہیں لایا جاتا ؟ یہ سارا معاملہ چند معاشی ماہرین کی جنبش ابرو کا ہی محتاج کیوں ہے؟ کبھی اداروں کو قومیا لیا جاتا ہے اور کبھی ان کی نجکاری فرما دی جاتی ہے۔ کیا یہ کوئی بچوں کا کھیل ہے؟ کسی مستقل پالیسی کے خدوخال کیوں وضع نہیں ہو پاتے؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ کب، کہاں اور کیسے طے کر لیا گیا ہے کہ حکومتوں سے ادارے نہیں چلتے۔ حکومتوں میں بیٹھی کاروباری شخصیات جب یہ کہیں کہ حکومتوں کا کام کاروباری ادارے چلانا نہیں اور ہم اس کی نجکاری کرنے لگے ہیں تو اس پر اتنی سادگی سے یقین کر لینا ممکن نہیں کیونکہ اس میں مفادات کے ٹکراؤ کا امکان بھی شامل ہو سکتا ہے۔ تیسرا سوال یہ ہے کہ نجکاری کے عمل میں شفافیت کا عنصر کتنا ہے؟ محض ٹی وی پر لائیو دکھا دینے سے کیا شفافیت یقینی ہو جاتی ہے؟ وہی احتمال کہ اس نجکاری کے عمل سے خود حکمرانوں کے مفادات تو وابستہ نہیں، اقتدار اور کاروبار کا کہیں کوئی کارٹل تو نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے یہ محض بد گمانی ہو لیکن ریگولیٹری ادارے جب طاقتور نہ ہوں اور ان کی طاقت نظر نہ آ رہی ہو تو بد گمانی میں لپٹے اشکالات پیدا ہونا ایک فطری امر ہے۔ چوتھے سوال کا تعلق ترجیحات سے ہے۔ اگر پی آئی اے چلانے کے لیے پیسے نہیں ہیں تو مہنگے آئی پی پیز چلانے پر اتنا اصرار کیوں ہے؟ ادھر تو عالم یہ ہے کہ نیٹ میٹرنگ پالیسی بھی بدل دی گئی ہے تا کہ آئی پی پیز کی مہنگی بجلی کے خریدار کم نہ ہو جائیں۔ یہ کفایت شعاری آئی پی پیز کے معاملے میں کیوں بیدار نہ ہو سکی جس نے پی آئی اے کے معاملے میں کمالات دکھا دیے۔ برطانوی ہائی کمشنر جین میرٹ نے مانچسٹر فلائٹ آپریشن کی بحالی کو ایک ’کامیابی‘ قرار دیا (برطانوی ہائی کمیشن) پانچویں سوال کا تعلق نجکاری کے حوالے سے ہمارے تجربات سے ہے۔ پی ٹی سی ایل کا تجربہ ہمارے سامنے ہے۔ کیا کبھی کسی سطح پر، کسی حکومت نے یا پارلیمان نے کوئی سٹڈی کروانے کی کوشش کی کہ اس پی ٹی سی ایل کی نجکاری سے پاکستان کو کیا ملا اور اس کا کتنا نقصان ہوا؟ پی ٹی سی ایل کی نجکاری کے تجربات سے سیکھنے کی کوئی کوشش کیوں نہیں کی گئی؟ چھٹا سوال یہ ہے کہ کیا یہ کہہ دینا کافی ہے کہ پی آئی اے ایک سفید ہاتھی بن گیا تھا اس لیے اس سے نجات حاصل کرنا ضروری تھا۔ پی آئی تو ایک منافع بخش ادارہ تھا۔ اس کامیاب اور باوقار قومی ادارے کو کس نے تباہ کیا؟ اگر غیر ضروری بھرتیاں ہوئیں تو کس حکومت نے کیں؟ اگر سفارش کلچر نے اسے تباہ کیا تو سفارش کلچر کا سرپرست کون ہے؟ یہی سیاسی جماعتیں ہیں جن پر انگلیاں اٹھتی ہیں، انہوں نے ہی سیاسی بھرتیوں سے ادارے کو ڈبویا۔ ساتواں سوال یہ ہے کہ ادارے کو تباہ کرنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی کیوں نہیں ہو سکتی؟ یہ سوال اس وقت مزید اہم ہو جاتا ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ حکومت تو اب بھی ان ہی سیاسی جماعتوں کے ہاتھ میں ہے جن کی غلط پالیسیوں نے قومی ادارہ ڈبو دیا۔ تو کیا باقی اداروں کا انجام بھی یہی ہو گا؟ کیا فیصلہ سازوں سے ان کی غلطیوں پر باز پرس نہیں ہونی چاہیے؟ چلیں باز پرس کا دروازہ نہیں کھولنا تو نہ کھولیں لیکن کوئی رپورٹ تو مرتب کریں کہ پی آئی اے کو کس کے غلط فیصلوں نے یہ دن دکھائے تا کہ یہ غلطیاں آگے تو نہ دہرائی جائیں یا کوئی اس پر نادم ہو کر قوم سے معافی مانگنا چاہے تو اسے آسانی ہو۔ آٹھواں سوال یہ ہے کہ یہ کیسی نجکاری ہے جس میں کل قیمت یعنی ایک سو پینتیس ارب کا 92 فیصد نیا مالک اسی کاروبار میں لگائے گا۔ یعنی قومی خزانے میں کامیاب بولی کی ساری رقم نہیں آئے گی۔ اس کا صرف آٹھ فیصد آئے گا اور اس کا 92 فیصد خریدار کو ملے گا کہ جائیے اور یہ رقم اپنی ذاتی نجی کاروبار میں لگائیے۔ حکومت کے پاس اگر رقم نہیں اور وہ قومی ادارے نیلام کر رہی ہے تو نیلامی کا 92 فیصد نئے مالک کو اس کے ذاتی کاروبار کے لیے کیوں دے رہی ہے؟ نواں سوال یہ ہے کہ جب نجکاری ہو گئی تو نجکاری کے بعد خریدار جانے اور پی آئی اے جانے، حکومت کا اب اس سے کیا تعلق ہے کہ آپ وہ 92 فیصد قومی خزانے میں جمع کرانے کی بجائے خریدار کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھ اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field) عمران خان کی حکومت میں جب ملک ریاض کو جرمانہ ہوا اور اس کی بیرون ملک سے ضبط شدہ رقم پاکستان آئی تو ملک ریاض کے جرمانے کی مد میں ادا کر دی گئی۔ یعنی عملا یہ رقم ملک ریاض کو دے دی گئی کہ یہ لیجیے رقم اور اس سے آپ کا جرمانہ ادا ہوا۔ اب شہباز شریف کی حکومت میں پی آئی اے نیلام ہوا۔ نیلامی کی کل رقم کا 92 فیصد نئے مالک کو دے دیا گیا کہ جا بچے اس رقم سے کاروبار کر۔ پی آئی اے میں لگا۔ کیا دونوں میں کوئی فرق ہے؟ دسواں سوال گویا یہ ہوا کہ ان دونوں واقعات میں جوہری طور پر کتنا فرق ہے؟ ہمارے ہاں بد قسمتی سے سنجیدہ موضوعات بھی سیاسی عصبیت کی نذر ہو جاتے ہیں اور ان پر معروضی گفتگو نہیں ہو پاتی۔ ہر حکومت کے حصے کے دانشور، ہر دور میں، اپنی حکومت کے ہر کام کی تائید میں دلائل کے انبار لگا دیتے ہیں۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ عمران خان کے دور میں پی ٹی ڈی سی کی نجکاری کا فیصلہ ہوا تو عمران خان کے حصے کے دانشور ہمیں سمجھانے آ گئے کہ کیا ہی شاندار فیصلہ ہے اور اب ن لیگ کے دور میں پی آئی اے کی نجکاری ہوئی ہے تو اس کے فضائل بیان کرنے کا یہی فریضہ دوسری صف کے لوگوں نے سنبھال لیا ہے۔ تماشا یہ ہے کہ کل جو پی ٹی ڈی سی کی نجکاری کا دفاع کر رہے تھے، آج پی آئی اے کی نجکاری کی مخالفت کر رہے ہیں اور جو کل نجکاری کی مخالفت کر رہے تھے آج وہ اس کا سہرا کہہ رہے ہیں۔ اقتدار بدلا تو چہرے بدل گئے۔ دلیلیں وہی ہیں، انداز وہی ہیں۔ نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ پی آئی اے نجکاری سیاست بنیادی سوال یہ ہے کہ قومی اثاثوں کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ کرنے سے پہلے اسے پارلیمان میں زیر بحث کیوں نہیں لایا جاتا ؟ یہ سارا معاملہ چند معاشی ماہرین کی جنبش ابرو کا ہی محتاج کیوں ہے؟ آصف محمود جمعرات, دسمبر 25, 2025 - 07:15 Main image:

پی آئی اے کا مسافر طیارہ تین اکتوبر، 2024 کو اسلام آباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر موجود ہے (روئٹرز)

نقطۂ نظر type: news related nodes: عارف حبیب کنسورشیم نے پی آئی اے کی بولی جیت لی پی آئی اے اور ایئرکرافٹ انجینیئروں میں تنازع ہے کیا؟ حکومت کا پی آئی اے کے ’احمقانہ‘ اشتہار کی تحقیقات کا حکم پی آئی اے کا لاہور سے باکو کے لیے براہ راست پرواز کا آغاز SEO Title: پی آئی اے کی نجکاری : 10 سوالات copyright: show related homepage: Hide from Homepage