سینیئر سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اگر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) قیادت اور خیبر پختونخوا حکومت تحمل کا مظاہرہ کرے اور مذاکرات کی میز کو ترجیح دے تو اعلی عدالتوں سے نہ صرف نو مئی مقدمات میں ملنے والی سزائیں ختم ہوسکتی ہیں بلکہ ایوانوں میں سیاسی سرگرمیاں بھی موثر ہوسکتی ہیں۔ پاکستان میں سیاسی جماعتوں پر سختیاں کوئی نئی روایت نہیں۔ ماضی کی طرح ان دنوں سابق حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان سمیت مرکزی قیادت کے خلاف بھی ٹرائل کورٹس سے نو مئی مقدمات کے فیصلے دیے جا رہے ہیں۔ اس سے پہلے پاکستان پیپلز پارٹی، پھر مسلم لیگ ن اور حالیہ کالعدم قرار دی گئی تحریک لبیک پاکستان کے لیے بھی شدید مشکلات دیکھنے میں آئی ہیں۔ ایسی سختیوں کے باوجود پی ٹی آئی قیادت اور کارکنوں کو سیاسی راستے آسان ہونے کی توقع ہے۔ لیکن پاکستان فوج کی اگر بات کی جائے تو تحریک انصاف سے متعلق ان کی اخباری کانفرنس سے نہیں لگتا کہ ابھی اس کے موقف میں کویی نرمی دیکھنے میں آئی ہے۔ سینیئر تجزیہ کار مجیب الرحمن شامی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’پی ٹی آئی مسلسل مشکلات سے دوچار ہے۔ نو مئی کے پر تشدد احتجاج نے ان کے سیاسی راستے بند کر دیے۔ لیکن اب دو سال سے زائد عرصہ گزر چکا ہے اگر پی ٹی آئی نے مزاحمت کا راستہ اپنایا تو ریاست نے بھی ہر طرح کی سختیاں بڑھا دیں۔ لیکن ماضی کو مدنظر رکھا جائے تو جو کچھ عمران خان یا پی ٹی آئی رہنماوں کے خلاف ہونا تھا ہوگیا۔ اب شاید اعلی عدالتوں سے انہیں ریلیف ملنا شروع ہو جائے۔ لیکن اس کا انحصار سیاسی حکمت عملی پر ہے۔‘ ادھر وزیراعظم شہباز شریف نے گذشتہ دنوں ایک مرتبہ پھر اس بات کا اعادہ کیا کہ ان کی حکومت، تحریک انصاف کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار ہے۔ 23 دسمبر 2025 کو اسلام آباد میں وفاقی کابینہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تمام سیاسی جماعتوں میں ہم آہنگی ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لیے ضروری ہے۔ شہباز شریف نے کہا کہ اگر پی ٹی آئی مذاکرات کے لیے تیار ہے تو حکومت بھی اس کے ساتھ بیٹھنے کو تیار ہے۔ تاہم انہوں نے واضح کیا کہ بات چیت کے بہانے کسی بھی قسم کی بلیک میلنگ یا غیر قانونی اقدامات کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ بات چیت جائز معاملات پر مبنی ہونی چاہیے۔ حکومتی پیشکش موجودہ حالات میں ایک اچھی آپشن ہے۔ جنوبی پنجاب کے معروف کھر خاندان سے تعلق رکھنے والی پی ٹی آئی رہنما اور رکن قومی اسمبلی نادیہ فاروق کھر نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’ہماری جدوجہد جاری ہے، ہم مذاکرات پر یقین رکھتے ہیں۔ کیونکہ سیاسی راستے گفتگو سے ہی نکلتے ہیں۔ لیکن تمام رہنما اور کارکن عمران خان کے ساتھ کھڑے ہیں جو وہ فیصلہ کریں گے ہم اس کی مکمل پاسداری کریں گے۔ ’ہم نے ہر طرح کی سخت کارروائیوں کا سامنا بھی کیا اور اپنی سیاست کو بھی بحال رکھا ہے۔ جہاں تک بات 2026 کی ہے تو ہمیں امید ہے اعلی عدلیہ سے انصاف ضرور ملے گا۔ ہم بیرونی امداد پر یقین نہیں رکھتے بلکہ اپنے ملک کے آئین وقانون کے تحت ہی ہم اپنے مسائل حل کریں گے یہ اندھیرے چھٹیں گے اور روشنی ضرور ہوگی۔‘ مزید پڑھ اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field) پی ٹی آئی کا حکومت ختم ہونے کے بعد سے مزاحمت کا بیانیہ جاری ہے۔ قیادت متعدد بار مذاکرات صرف عسکری قیادت سے کرنے کی پیش کش کر چکی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے حکومتی کمیٹی سے مذاکرات تو ہوئے لیکن وہ بے نتیجہ رہے۔ تجزیہ کار سلمان غنی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’تحریک انصاف کی مشکلات میں اضافے کی سب سے بڑی وجہ عمران خان خود ہیں۔ بعض سیاسی رہنما گفتگو کا راستہ بناتے بھی ہیں تو وہ جیل سے ہی متنازع بیان دے کر سارا معاملہ ختم کر دیتے ہیں۔ انہیں سیاسی افہام وتفہیم کا راستہ بہت پہلے اپنا لینا چاہیے تھا۔ کیونکہ اپنے ہی ملک کے اداروں کے ساتھ کبھی لڑائی نہیں ہوسکتی۔ ’سوشل میڈیا پر بھی پی ٹی آئی نے ہر اہم موقع پر منفی پروپیگنڈا سے اپنی پریشانیاں خود بڑھائیں۔ ہاں البتہ ہمارے ملک میں معاملات طے پانے کے بعد ریلیف کا راستہ عدالتوں سے ہی نکلتا ہے۔ پی ٹی آئی میں دوسرا بڑا مسئلہ متبادل قیادت کا ہے جو باہر ہیں انہیں مکمل اختیار نہیں دیا جا رہا۔ جو مذاکرات میں سب بڑی روکاوٹ ہے۔‘ مجیب الرحمن شامی کے بقول، ’پاکستان میں کچھ نہیں کہا جاسکتا کب سیاسی حالات بدل جائیں۔ اب خان صاحب نے محمود خان اچکزئی اور علامہ ناصر کو ذمہ داریاں سونپی ہیں لہذا وہ کوئی راستہ نکال سکتے ہیں۔ پشاور میں 31 مارچ 2024 کی اس تصویر میں پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں کو دیکھا جا سکتا ہے (فائل فوٹو/ اے ایف پی) ’بیرونی قوت جیسے امریکہ براہ راست تو مداخلت نہیں کرسکتا۔ ٹرمپ سے بھی امید لگائی جارہی تھی لیکن انہوں نے بھی خان صاحب کی رہائی میں دلچسپی نہیں لی۔ ایسے ہی کسی دوست ملک نے بھی کوئی آسانی پیدا کرنی کی کوشش نہیں کی۔ یہیں سزا وجزا ہوگی ایسے راستے ڈھونڈنے پڑیں گے جن پر چل کر آسانی پیدا ہوسکے۔‘ تحریک انصاف پارلیمنٹ میں کمیٹیوں سے مستعفی ہوچکی ہے ان کے کئی ایم این ایز، سینیٹرز اور ممبران صوبائی اسمبلی نو مئی مقدمات میں نااہل ہوکر اپنی نشستوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ توقع کی جارہی ہے کہ شاہ محمود کی آٹھ میں سے چار مقدمات میں بریت ہوچکی اگر باقی چار مقدمات میں بھی بری ہو کر رہا ہو جائیں تو وہ دیگر رہنماوں کے ساتھ مل کر نہ صرف پارٹی کو سیاسی بہتری کی طرف لے جاسکتے ہیں۔ بلکہ اسٹیبلشمنٹ سے تناو میں بھی کمی کے لیے کردار ادا کر سکتے ہیں۔ تجزیہ کار منیب فاروق نے جولائی میں انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ماضی میں جتنی بھی تحاریک رہیں ہیں جب تک انہیں اسٹیبلشمنٹ کا آشیرباد نہ ہو تب تک حکومتیں ختم نہیں ہوتیں۔ 2025 2026 پاکستان تحریک انصاف نو مئی تجزیہ کاروں کی رائے ہے کہ پی ٹی آئی کے خلاف جو کچھ ہوچکا اس سے زیادہ کیا ہوگا تاہم انہیں امید ہے کہ آئندہ سال اعلی عدلیہ سے ریلیف مل سکتا ہے۔ ارشد چوہدری جمعرات, دسمبر 25, 2025 - 07:30 Main image:
ماضی کو مدنظر رکھا جائے تو جو کچھ عمران خان یا پی ٹی آئی رہنماوں کے خلاف ہونا تھا ہوگیا۔ اب شاید اعلی عدالتوں سے انہیں ریلیف ملنا شروع ہو جائے (گرافک چیٹلی)
سیاست jw id: HJ3mq0Jt type: video related nodes: کچھ لوگ بڑی پارٹی اور بڑے ادارے کو لڑوانا چاہتے ہیں: پی ٹی آئی ’پی ٹی آئی کو تراشنے کا کام شروع‘: گنڈاپور کے استعفے پر تبصرے کیا سہیل آفریدی پی ٹی آئی کی جارحانہ سیاست واپس لا سکیں گے؟ این ایف سی کا پی ٹی آئی اپنے دور میں مسئلہ حل کیوں نہ کرسکی؟ SEO Title: تحریک انصاف 2026میں کوئی سیاسی راستہ نکال پائے گی؟ copyright: show related homepage: Hide from Homepage