دنیا میں ویسے کیا کم غم ہیں، غم جاناں، غم روزگار، غم دوراں، غم عاشقی۔۔۔ اوپر سے اوورسیز پاکستانیوں نے ایک اور غم پال رکھا ہے یعنی اپنے دیس کا غم۔ ایسا غم جو اوورسیز بیچاروں کو اندر ہی اندر کھائے جا رہا ہے۔ اوورسیز جب تک اوورسیز نہ تھے باقی کروڑوں کی طرح پاکستان کی آبادی کا ایک ہندسہ ہوا کرتے تھے انہیں تب سے اس خوش فہمی کی عادت ہے کہ پاکستان کی سیاست میں ان کا کوئی کردار ہے۔ عادتیں اتنی آسانی سے کہاں جاتیں ہیں سو ان کا ملک بدل گیا، حالات بدل گئے لیکن منہ کو لگی پاکستانی سیاست پہ رونے پیٹنے کی عادت نہیں چُھٹ رہی۔ اس وقت عالمی اعداد و شمار کے حساب سے دنیا بھر میں لگ بھگ ایک کروڑ 20 لاکھ سے زائد پاکستانی تارکین وطن ہیں لیکن یہ وہ ہیں جن کی گنتی 1990 سے شروع ہوئی۔ ان سے قبل باہر جانے والے پاکستانی اور ان کی اگلی تین نسلیں الگ ہیں۔ غیر قانونی طور پہ ملک چھوڑنے والے پاکستانیوں کی تعداد الگ ہے۔ یعنی پاکستان سے باہر رہنے والے وہ افراد جو خود کو پاکستانی تارک وطن، پاکستانی نژاد، یا پاکستانی خاندان سے جڑا ہوا کہتے ہیں ان کی اصل تعداد ایک کروڑ 20 لاکھ سے کہیں زیادہ ہے۔ ان ایک کروڑ اوورسیز میں زیادہ تر خلیجی ممالک یعنی سعودی عرب، کویت، امارات، قطر وغیرہ میں کام کے غرض سے جاتے ہیں۔ ان اوورسیز کو مشرق وسطیٰ کے ماحول میں سیاسی ایڈونچر کم ہی سوجھتا ہے کیوں کہ وہاں غم روزگار باقی سرگرمیوں پہ غالب رہتا ہے۔ اصل درد سر یورپ، امریکہ، برطانیہ میں رہنے والے اوورسیز اور ان کی نسلیں ہیں۔ یہ اوورسیز بس سیدھے سادے اوورسیز ہوتے ہیں، انہیں یورپ، امریکہ، برطانیہ میں سیاسی لابنگ کرنے والے خواص کے ساتھ کنفیوژ نہیں کرنا چاہیے۔ سیاست دانوں اور ریاستی اداروں کے خلاف اوورسیز کی گستاخی اور زبان درازی میں کچھ قصور یہاں کے ماحول کا بھی ہے۔ جب یہ اوورسیز پاکستانی روزانہ نہار منہ جمہوریت کی اوور ڈوز لیں گے تب یہ تو ہوگا۔ جب دوسرے ملک میں تارک وطن ہونے کے باوجود مقامی شہریوں کی طرح زندگی کے مزے لیں گے، انسانی حقوق پہ اپنا حق جتائیں گے، من مرضی کے لیڈر کو ووٹ ڈالیں گے اور کھل کر میزبان ملک کی سیاسی اور دفاعی پالیسی پہ تنقید کریں گے تب یہ مغالطہ لا محالہ پیدا ہوگا کہ ایسی جرات اپنے وطن میں بھی کریں۔ مزید پڑھ اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field) غزہ میں اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینیوں کی نسل کشی کے خلاف دنیا میں احتجاج ہوا بالخصوص یورپ میں کھل کر عوام نے اپنے ممالک کی اسرائیل کے ساتھ خارجہ پالیسی اور دفاعی پالیسی پہ تنقید کی۔ ان عوام میں مقامی اور غیر مقامی دونوں شامل ہیں۔ ریاست کی دفاعی و خارجہ پالیسی کو چیلنج کرنے کے یہ مناظر شاید اوورسیز کو مزید مغالطے میں ڈال گئے۔ انہیں لگا یہ سہولت اپنے دیس میں بھی دستیاب ہے۔ یہاں یورپ میں اقتدار ایک ٹرم پوری کر کے الیکشن جیتنے والی دوسری جماعت کو منتقل ہو جاتا ہے۔ ایسے غیر اخلاقی مناظر دیکھ کر اوورسیز بگڑ جاتے ہیں۔ ان کو لگتا ہے ایسا نظام اپنے ملک میں بھی آنا چاہیے۔ دیس کے غم میں گھلنے والے اوور سیز نہ یہاں ٹائر جلا سکتے ہیں نہ اینیٹیں رکھ کر سڑک بلاک کر سکتے ہیں۔ بھوک ہڑتال کا فائدہ نہیں اور پاکستانی سفارت خانے کے باہر احتجاج بھی جیسے جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا۔ یورپی پارلیمنٹ، ٹین ڈاؤننگ سٹریٹ یا وائٹ ہاؤس کے سامنے احتجاج کریں تو اس کی ہیڈ لائنز بھی صرف سیاسی پارٹی کے سوشل میڈیا پہ بنتی ہیں۔ اوورسیز ووٹ دے نہیں سکتے کیوں کہ وہ باہر رہتے ہیں اور زمینی حقائق کا انہیں بھلا کیا علم ہو سکتا ہے؟ وہ کون سا اب مڑ کہ واپس آنے والے ہیں۔ لے دے کر سوشل میڈیا کا میدان ہی بچتا ہے جہاں بھڑاس نکال لی جاتی ہے سنا ہے اب وہاں بھی قدغن لگنے کو ہے۔ ناقدین کہتے ہیں کہ صرف پیسہ بھیجنے سے سیاسی فیصلوں میں براہِ راست مداخلت کا اخلاقی جواز پیدا نہیں ہو جاتا، خاص طور پر جب بیرونِ ملک مقیم افراد روزمرہ کے زمینی مسائل کا سامنا نہیں کرتے۔ اس لیے ریاست کا فیصلہ ہے کہ ووٹ، رائے، احتجاج اور سوال، یہ سب وہ اضافی سہولیات ہیں جو صرف ان پاکستانیوں کے لیے مختص ہیں جو پاکستان میں رہتے ہوئے سول بدانتظامی، مہنگائی کی مار اور جمہوری فراڈ سہتے ہیں۔ جیسے گھر والے باہر سے آنے والی رقم کے انتظار میں ہوتے ہیں ویسے ہی سیاسی جماعتیں بھی صرف اوورسیز کے فنڈ ریزنگ ایونٹس میں دلچسپی رکھتی ہیں، اور بالکل ایسی ہی امیدیں حکومت پاکستان کی اوورسیز سے جڑی ہیں۔ کلیہ بڑا سیدھا سا ہے کہ اوورسیز نہ زیادہ بولیں، نہ زیادہ سوچیں، اور سوال تو بالکل نہ کریں۔ بس زرمبادلہ بھیجیں اور چِل کریں۔ نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ پاکستان بیرون ملک پاکستانی زاویہ اوورسیز جب تک اوورسیز نہ تھے باقی کروڑوں کی طرح پاکستان کی آبادی کا ایک ہندسہ ہوا کرتے تھے انہیں تب سے اس خوش فہمی کی عادت ہے کہ پاکستان کی سیاست میں ان کا کوئی کردار ہے۔ عفت حسن رضوی جمعہ, دسمبر 26, 2025 - 06:30 Main image:
اسلام آباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر 10 جنوری 2025 کو پی آئی اے کی پیرس کے لیے پرواز کے بورڈنگ سے پہلے امیگریشن کاؤنٹر پر مسافر انتظار کر رہے ہیں (فائل فوٹو/ اے ایف پی)
نقطۂ نظر type: news related nodes: اوورسیز پاکستانی روشن مستقبل پر سرمایہ کاری کریں: فیلڈ مارشل اوورسیز پاکستانی کمیونٹی میں ٹیکس چوری کی ایک اور کہانی اوورسیز پاکستانی، تحریک انصاف اور کچھ غلط فہمیاں ’اوورسیز پاکستانیوں کی جانب سے پارٹی فنڈنگ فارن فنڈنگ نہیں کہلاتی‘ SEO Title: اوورسیز پاکستانی سیاست چھوڑیں، پیسے بھیجیں، چِل کریں copyright: show related homepage: Hide from Homepage