’گریٹ پیپل ٹو فلائی ود‘: پی آئی اے کے وہ ریکارڈ جو آج بھی قائم ہیں

پاکستان انٹرنیشنل ایئرلاینز (پی آئی اے) کی نج کاری کا عمل گذشتہ روز اس وقت پایۂ تکمیل کو پہنچا جب عارف حبیب کنسورشیم نے اسے 135ارب روپے کی بولی دے کر خرید لیا۔ یہ نج کار دراصل حکومت کی ان پالیسیوں کا تسلسل ہے جس کے تحت خسارے میں چلنے والے اداروں کو فروخت کیا جارہا ہے تاکہ قومی خزانے پر پڑنے والے مالی بوجھ کو کم کیا جا سکے۔ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ حکومت  قومی اداروں کو اونے پونے داموں فروخت کر کے غلط کر رہی ہے جب کہ وہ لوگ جو معاشی امور کو سمجھتے ہیں ان کا کہنا  ہے کہ حکومتوں کا کام کاروبار کرنا نہیں ہوتا بلکہ کاروباروں کے لیے سہولیات فراہم کرنی ہوتی ہیں تاکہ وہ بالواسطہ طور پر محاصل اکٹھے کر سکے اور نجی شعبے کی مدد سے ملک میں مزید روزگار کے مواقع پیدا کیے جا سکیں۔ پی آئی اے کی نجکاری سے قومی ایئر لائنز کا حکومت کی ملکیت میں 70 سالہ سفر اختتام پزیر ہو گیا ہے اگرچہ اب بھی اس کے 25 فیصد شیئرز حکومت کے پاس ہی ہیں یوں اسے قومی ایئرلائنز کا ہی درجہ حاصل رہے گا۔ بہت سے لوگ نہیں جانتے کہ پاکستان کی قومی ایئر لائنز کا آغاز کیسے ہوا تھا اور اسے کن لوگوں نے کن حالات میں بنایا تھا۔ اوریئنٹ ایئر ویز جس کی کوکھ سے پی آئی اے نکلی متحدہ ہندوستان میں جدید ترین سفر ریل کا ہی شمار ہوتا تھا۔ اس وقت ابھی  ہوائی سفر اتنا عام نہیں ہوا تھا۔ خود انگریز انتظامیہ بھی لندن سے بحری جہازوں کے ذریعے ہندوستان پہنچتی تھی جس پر مہینوں لگ جاتے تھے۔ تاہم 1869 میں نہرِ سویز کھلنے کے بعد یہ سفر تین چار ہفتے کا رہ گیا تھا۔ 1930 کی دہائی میں دنیا میں ایک انقلابی تبدیلی یہ آئی کہ ہوائی جہاز اڑنے لگے۔ شروع شروع میں یہ سفر اتنا مہنگا تھا کہ صرف اشرافیہ اور اعلیٰ ترین انتظامیہ کو ہی جہازوں کے ذریعے سفر کی اجازت تھی۔ بین البراعظمی طور پر یہ سفر بھی ہفتہ بھر لے لیتا تھا۔ 1924 میں برطانیہ نے اپنی کالونیوں کے درمیان تیز ترین سفر کے لیے امپیریل ایئرلائن شروع کی جس کی پروازیں  لندن سے چلتی تھیں پیرس، روم، قاہرہ، بغداد، بحرین اور پھر کراچی سٹاپ اوور کرتے ہوئے دہلی  پہنچتی تھیں۔ بعد میں اسی امپیریل ایئر لائن کی کوکھ سے  برٹش ایئر ویز نکلی۔ ہندوستان کی پہلی مقامی ایئر لائن ٹاٹا ایئر لائن تھی جسے جے آر ڈی ٹاٹا نے 1932 میں اس لیے قائم  کیا تھا کہ اسے امپیریل ایئر ویز سے ڈاک کی تیز تر ترسیل کا کنٹریکٹ مل گیا تھا۔ اس نے دو جہاز خرید کر کراچی سے ممبئی کے درمیان سروس شروع  کر دی یہ چھ چھ سیٹوں والے طیارے تھے۔ جب  ہندوستان کی آزادی اور اس کے نتیجے میں پاکستان اور انڈیا  کا قیام یقینی ہو گیا تو قائد اعظم محمد علی جناح نے اس ضرورت کو محسوس کیا کہ پاکستان  مشرقی اور مغربی حصوں میں منقسم ہو گا جن کے درمیان تیز ترین رابطوں کے لیے ایک ایئرلائن کا ہونا ضروری ہے۔ انہوں نے جب اس ضرورت کا اظہار اس وقت کی معروف کاروباری شخصیت مرزا احمد اصفہانی سے کیا تو انہوں نے قائد کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے 23 اکتوبر 1946 کو اورئینٹ ایئر ویز کے نام سے کلکتہ میں کمپنی رجسٹرڈ کروا لی ان کے ساتھ آدم جی گروپ بھی شراکت دار تھا۔ مئی 1947 میں اورئینٹ ایئر ویز کو طیارے اڑانے کی اجازت مل گئی۔ انہوں نے امریکہ سے چار ڈگلس ڈی سی تین جہاز خریدے اور پہلی فلائٹ چار جون 1947 کو کلکتہ سے رنگون کے درمیان چلا دی۔ دو ماہ بعد ہی پاکستان بن گیا تو دہلی سے بہت سی ضروری دستاویزات اور سامان اسی ایئر لائن کی ذریعے دہلی سے کراچی منتقل کیا گیا۔ کمپنی کا ہیڈ کوارٹر بھی کلکتہ سے کراچی منتقل ہو گیا۔ کراچی سے ڈھاکہ پروازیں بھی شروع ہو گئیں۔ اگلے دو سال میں اوریئنٹ ایئر ویز کی پروازیں  کراچی سے لاہور راولپنڈی، پشاور، کوئٹہ اور فیصل آباد کے لیے شروع ہو چکی تھیں۔ پاکستان کی فضائی ضروریات بڑھ رہی تھیں اوریئنٹ ایئر لائن ایک  نجی کمپنی تھی  جس کے پاس فضائی بیڑے کی توسیع کے لیے محدود وسائل تھے چنانچہ حکومت نے 10 جنوری 1955 کو ایک آرڈیننس کی ذریعے اوریئنٹ ایئر ویز کو ایک نئی کمپنی پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن میں ضم کر دیا۔ پی آئی اے کے سنہرے دور کا آغاز ایم اے اصفہانی جو اوریئنٹ ایئر کے مالک تھے انہیں ہی نئی ایئر لائن کا چیئرمین بنایا گیا۔ ظفر الاحسن  پی آئی اے کے پہلے مینجنگ ڈائریکٹر بنائے گئے۔ دراصل یہ انہی کے ویژن کا کمال تھا کہ محض چار سال کے عرصے میں پی آئی اے کا تمام انتظامی ڈھانچہ بن گیا اور مزید نئے جہاز خریدے گئے۔ مزید پڑھ اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field) ان کے بعد ایئر مارشل نور خان کو ادارے کا ایم ڈی بنایا گیا تو پی آئی اے نے دن دوگنی رات چوگنی ترقی کی۔ اسی کو ادارے کا سنہری دور کہا جاتا ہے جب صرف چھ سال کے قلیل عرصے پی آئی اے دنیا کی صف اول  کی ایئر لائنوں میں شمار ہونے لگی۔ اس کے پا س کراچی میں نہ صرف جدید ترین ہیڈ کوارٹر تھا بلکہ کراچی میں جہازوں کے انجن اوورہال کرنے کی سہولت بھی بنا دی گئی جہاں پر ماہر انجنیئرز جہازوں کی مرمت کا تمام کام سرانجام دیتے تھے۔ یہ  پہلی ایشیائی ایئرلائن تھی جسے امریکی فیڈرل ایوی ایشن ایڈمنسٹریشن (ایف اے اے) اور ایئر رجسٹریشن بورڈ (جو بعد میں برطانوی سول ایوی ایشن اتھارٹی بنا) کی جانب سے جہازوں کی مرمت کی منظوری دی گئی جو دراصل اس کے انجنیئرز کی مہارتوں پر اعتماد کا اظہار تھا۔ یہی نہیں بلکہ شاید قارئین کے لیے یہ بات بھی حیرانی کی ہو کہ پاکستان میں پہلا کمپیوٹر آئی ابی ایم 1401 پی آئی اے نے ہی 1967 میں خریدا تھا۔ 1970 میں ہی پی آئی اے نے فلائٹ کچن بھی قائم کر لیا تھا۔ 1985 میں، پی آئی اے ایشیا کی پہلی ایئرلائن بنی جس نے بوئنگ 737-300 طیارے لیز پر لے کر اپنے بیڑے میں شامل کیے جس کے  بعد ات مارچ 1960 کو کراچی سے لندن کی پرواز شروع کی گئی جسے بعد میں 17 جون 1961 کو نیویارک تک بڑھا دیا گیا۔ اس وقت لندن اور نیویارک تک کی پروازیں شروع کرنے والی پی آئی اے ایشیا کی پہلی ایئر لائن تھی۔ اس دوران پی آئی اے نے مزید جہاز جن میں بوئنگ 720، فوکر ایف27 بھی خرید لیے اور مشرقی پاکستان میں سلہٹ، چٹا گانگ، ڈھاکہ، کومیلا اور شورڈی کے روٹوں پر ہیلی کاپٹر سروس بھی شروع  کر دی اور صرف ایک سال میں ہیلی کاپٹر کے ذریعے 70,000 مسافروں کو ان کی منزل تک پہنچایا۔ 1964 میں پی آئی اے نے بوئنگ 720 کے ذریعے کراچی سے شنگھائی تک فلائیٹ چلائی اور یوں وہ چین جانے والی پہلی غیر کمیونسٹ ایئر لائن بن گئی۔ ایئر مارشل اصغر خان جب ادارے کے سربراہ بنائے گئے تو اس دوران پی آئی اے کی ایئر ہوسٹس کا ڈریس فرانس کے مشہور ڈیزائنر پیئر کارڈن سے ڈیزائن کرایا گیا۔ پی آئی اے نوے کی دہائی میں ایسی ایئر لائن بن گئی تھی جس کے بیڑے میں جدید ترین بوئنگ اور ایئر بس دونوں قسم کے جدید ترین طیارے تھے۔ پی  آئی اے کے ریکارڈ جو آج بھی قائم پی آئی اے صرف ایک ائر لائن نہیں بلکہ اسے ایسی مثالی لیڈر شپ اور انتھک کارکن میسر تھے جنہوں نے ادارے کو ترقی دینے کیے اپنی تمام تر توانائیاں وقف کر دیں۔ 1962 میں میں پی آئی اے کے کارکنوں نے بالائی فضائی حالات کو موافق جانتے ہوئے لندن اور کراچی کے درمیان تیز ترین فلائٹ کا ریکارڈ قائم کر دیا۔ اس فلائٹ میں  فیڈریشن ایرو ناٹکس انٹرنیشنل کے  نمائندے بھی موجود تھے جنہوں نے تصدیق کی کہ پی آئی اے نے صرف چھ گھنٹے 43منٹ اور 51 سیکنڈ میں  لندن سے کراچی کی فلائیٹ مکمل کی یہ ریکارڈ آج تک قائم ہے۔ پی آئی اے کی ویب سائٹ کے مطابق پی آئی اے  پہلی ایشیائی ایئرلائن جس نے جیٹ طیارہ چلایا۔پی آئی اے پہلی غیرکمیونسٹ ایئرلائن جس نے عوامی جمہوریہ چین کے لیے پرواز کی اور ماسکو کے راستے ایشیا اور یورپ کے درمیان سروس چلائی۔ ایشیا کی پہلی ایئرلائن جس نے جدید ٹیکنالوجی والا بوئنگ 737-300 حاصل کیا۔ پہلی ایئرلائن جس نے بین الاقوامی روٹس پر مسافروں کو فلمیں دکھائیں۔ دنیا کی پہلی ایئرلائن جس نے بوئنگ ایل آر 777-200 اپنے فضائی بیڑے میں شمل کیا جو دنیا کا سب سے طویل فاصلے تک پرواز کرنے والا کمرشل جہاز ہے۔ پی آئی اے کے بڑے حادثے پی آئی اے گلوبل ایئر کریشز لسٹ میں تیسرے نمبر پر آتی ہے اس فہرست میں امریکن ایئر اور ایئر فرانس دونوں 11، 11 جہازوں کے تباہ ہونے کے ساتھ پہلے نمبر پر موجود ہیں جبکہ پی آئی اے کے آٹھ جہاز کریش ہوئے ہیں۔ پی آئی اے کو گذشتہ 70 سالوں میں چھوٹے بڑے کل 81 حادثے پیش آئے ہیں۔ اس کا سب سے جان لیوا حادثہ 28 ستمبر 1992 کو اس وقت ہوا جب پی آئی اے ایئر بس اے300  نیپال کے دارالحکومت کٹھمنڈو کے قریب گر کر تباہ ہو گئی جس میں سوار 167 افراد جان سے گئے۔ اس کا دوسرا بڑا جان لیوا حادثہ 26 نومبر 1979 کو اس وقت ہوا جب پی آئی اے کا بوئنگ 777 جہاز حاجیوں کو لے کر جدہ سے اڑا ہی تھا کہ حادثے کا شکار ہو گیا جس کے نتیجے میں 156 افراد چل بسے۔ 20مئی 1965 کو پی آئی اے کا بوئنگ 707 جہاز مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں  لینڈنگ کے دوران حادثے کا شکار ہوا جس کے نتیجے میں 124 افراد لقمۂ اجل بن گئے۔ 22 مئی 2020 کو کراچی ایئر پورٹ پر ایئر بس اے 320 بھی لینڈنگ کے دوران گر گیا جس سے 91 فراد مارے گئے۔ 3 مارچ 1981 کو پی آئی اے کا جہاز بوئنگ 720-030B اس وقت اغوا کر لیا گیا جب یہ کراچی سے پشاور جا رہا تھا جہاز میں کل 144 لوگ سوار تھے۔ الذوالفقار نے اغوا کی ذمہ داری قبول کی اور پاکستان کی جیلوں میں قید اپنے کارکنوں کی رہائی کے بدلے میں 13 دن بعد جہاز کو چھوڑ دیا مگر اس دوران ایک پاکستانی سفارتکار طارق رحیم قتل کر دیے گئے۔ 1985 میں فلائیٹ سیفٹی فاؤنڈیشن نے اسی جہاز کی ایئر ہوسٹس نائلہ نذیر کو بے مثال بہادری کا مظاہرہ کرنے پر ایوارڈ سے نوازا۔ نائلہ کی عمر اس وقت صرف 19 سال تھی اس نے ان 13 دنوں میں نہ صرف بے مثال عزم و ہمت کا مظاہرہ کیا بلکہ اپنے فرائضِ منصبی بھی ادا کیے اسے دمشق ایئرپورٹ پر ہائی جیکروں نے جہاز سے نکلنے کی پیشکش بھی کی مگر اس نے مسافروں کے ساتھ رہنے کو ترجیح دی تھی۔ پی آئی اے نجکاری بولی۔ فضائی کمپنی پی آئی اے صرف ایک ائر لائن نہیں بلکہ اسے ایسی مثالی لیڈر شپ اور انتھک کارکن میسر تھے جنہوں نے ادارے کو ترقی دینے کیے اپنی تمام تر توانائیاں وقف کر دیں۔ سجاد اظہر جمعہ, دسمبر 26, 2025 - 07:00 Main image:

پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن کا طیارہ اسلام آباد انٹرنیشنل ایئر پورٹ پر 10 جنوری 2025 کو پیرس کے لیے پرواز بھرنے کی تیاری کر رہا ہے (فائل فوٹو/ اے ایف پی)

بلاگ type: news related nodes: پی آئی اے اور ایئرکرافٹ انجینیئروں میں تنازع ہے کیا؟ پی آئی اے کا ڈھاکہ کے لیے براہ راست پروازیں دوبارہ شروع کرنے پر غور پی آئی اے کا لاہور سے باکو کے لیے براہ راست پرواز کا آغاز حکومت کا پی آئی اے کے ’احمقانہ‘ اشتہار کی تحقیقات کا حکم SEO Title: ’گریٹ پیپل ٹو فلائی ود‘: پی آئی اے کے وہ ریکارڈ جو آج بھی قائم ہیں copyright: show related homepage: Hide from Homepage