حاشیے پر موجود اور ابھرتی ہوئی مارکیٹوں پر نظر رکھنے والے عالمی سرمایہ کاروں کے لیے پاکستان کی قومی ایئر لائن پی آئی اے کی طویل عرصے سے التوا کا شکار نجکاری کسی تباہ حال اثاثے کی فروخت سے بڑھ کر واقعہ ہے۔ یہ ایک اہم سنگِ میل ہے۔ دہائیوں کی ناکام کوششوں، سیاسی یو ٹرنز اور ٹیکس دہندگان کے پیسوں سے دیے گئے اربوں روپے کے بیل آؤٹس کے بعد پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کے 75 فیصد حصص کی سرکاری ریفرنس پرائس سے زائد پر فروخت ملک کی معاشی تاریخ میں ایک تاریخی لمحہ ہے۔ اس فروخت کا وقت حادثاتی نہیں ہے۔ یہ ان دباؤ اور ادارہ جاتی ہم آہنگی کا نتیجہ ہے جو پہلے مفقود تھی۔ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کے پروگرام نے سخت مالی رکاوٹیں عائد کیں، جبکہ سپیشل انویسٹمنٹ فیسیلیٹیشن کونسل نے ایک سنگل ونڈو فریم ورک تشکیل دیا، جو سٹیک ہولڈرز کے درمیان رابطے کا اہل تھا، جو کہ پاکستان کی بکھری ہوئی سیاسی معیشت میں ایک اہم ضرورت تھی۔ ماضی کی ناکام نجکاری کی کوششیں، جن میں صرف ایک ناکافی بولی موصول ہوئی تھی، ایک مہنگا سبق ثابت ہوئیں۔ اس کے برعکس، حالیہ نجکاری کے عمل کو ساکھ کی بحالی کے لیے ترتیب دیا گیا تھا، جس کے تحت واجبات کو الگ کر دیا گیا، ریفرنس پرائس کسی حد تک حقیقت پسندانہ تھی اور شفافیت کو مضبوط بنانے کے لیے بولی کے عمل کو ٹیلی ویژن پر نشر کیا گیا۔ سرمایہ کار کے نقطہ نظر سے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اصل میں کیا بیچا گیا ہے۔ ریاست نے محض نقصان میں چلنے والی ایئر لائن کا بوجھ نہیں اتارا، اس نے ماضی کے بوجھ سے پاک ایک پلیٹ فارم اثاثہ فروخت کیا ہے۔ پرانے قرضوں کو الگ کر کے، حکومت نے ٹھوس سٹریٹجک قدر کی حامل ایک ’کلین‘ آپریٹنگ کمپنی پیش کی۔ خریدار نے درجنوں بین الاقوامی لینڈنگ سلاٹس، ڈومیسٹک ایوی ایشن مارکیٹ کا ایک چوتھائی حصہ اور ملک کا سب سے بڑا ایوی ایشن انفراسٹرکچر حاصل کیا۔ مزید پڑھ اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field) یہ بات بھی اتنی ہی اہم تھی کہ حکومت نے 25 فیصد حصہ اپنے پاس رکھا، تاکہ مستقبل میں کمپنی کی ویلیو بڑھنے سے فائدہ اٹھایا جا سکے۔ ان علاقائی منڈیوں کے لیے جن کے ساتھ پاکستان کے ویلیو چین کے روابط ہیں، اس فروخت کے اثرات خاص طور پر اہم ہیں اور ان پر ابتدائی توجہ دی جانی چاہیے۔ پاکستان کی اکنامک ویلیو چینز خلیجی تعاون کونسل کے خطے کے ساتھ گہرا تعلق رکھتی ہیں۔ خلیجی ملکوں میں کام کرنے والی پاکستانیوں کی راہداری، جو پاکستان کو سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر سے جوڑتی ہے، پی آئی اے کی آمدن کی بنیاد کے لیے بہت اہم ہے۔ سرکاری ملکیت میں یہ راہداری کمزور فلیٹ مینیجمنٹ اور محدود سٹریٹجک شراکت داریوں کی وجہ سے اپنی پوری صلاحیت کے مطابق کام نہیں کر رہی تھی۔ نجی ملکیت میں ایک مختصر اور زیادہ فعال پی آئی اے خود کو ایک ریجنل فیڈر کے طور پر دوبارہ متعارف کروا سکتی ہے، جو کوڈ شیئرنگ اور انٹرلائن معاہدوں کے ذریعے جی سی سی کے ایوی ایشن ایکو سسٹم میں ضم ہو سکتی ہے۔ مسافروں کی ٹریفک سے ہٹ کر جی سی سی کی جہت کارگو اور زراعت اور لائیو سٹاک میں علاقائی تجارت تک پھیلی ہوئی ہے، جو خلیجی ریاستوں کے لیے ایک سٹریٹجک ترجیح ہے۔ لاجسٹکس کی نااہلیوں نے طویل عرصے سے پاکستان کی برآمدی صلاحیت کو نقصان پہنچایا ہے۔ تجارتی اصولوں پر چلنے والا فعال پی آئی اے کارگو آپریشن پاکستانی پیداوار کو خلیجی منڈیوں سے جوڑنے کا ایک اہم ذریعہ بن سکتا ہے۔ جیتنے والے کنسورشیم کی ساخت، جس کے پاس کھاد، لاجسٹکس اور انڈسٹریل سپلائی چینز کا تجربہ ہے، پیداوار، نقل و حمل اور برآمدی صلاحیت کو یکجا کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ یہ ہم آہنگی غیر روایتی برآمدات کو بڑھانے اور پاکستان اور جی سی سی کے درمیان معاشی انضمام کو گہرا کرنے کے ایس آئی ایف سی کے مینڈیٹ کے عین مطابق ہے۔ نجکاری کے مقامی اثرات بھی اتنے ہی اہم ہیں۔ صارفین کے لیے، سرکاری سے نجی انتظام کی طرف منتقلی، دائمی تاخیر، پرانے کیبنز اور محدود پرائسنگ مسابقت سے نجات کا وعدہ کرتی ہے۔ دوبارہ سرمایہ کاری کی شرط، جو خریداری کی رقم کا بڑا حصہ واپس ایئر لائن میں لگانے کا تقاضا کرتی ہے، بیڑے کی جدید کاری اور روٹس کو معقول بنانے کی راہ ہموار کرتی ہے۔ مقامی ایئر لائنز کے ساتھ بڑھتی ہوئی مسابقت سے سروس کے سٹینڈرڈز بلند ہونے اور وقت کے ساتھ ساتھ قیمتوں میں بہتری آنے کا امکان ہے۔ شعبہ جاتی سطح پر یہ ٹرانزیکشن مفادات کے ایک بنیادی ٹکراؤ کو حل کرتی ہے۔ دہائیوں تک پاکستانی ریاست نے بیک وقت ایوی ایشن ریگولیٹر اور ایئر لائن آپریٹر کے طور پر کام کیا، جس نے مراعات کو بگاڑا اور نجی سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی کی۔ پی آئی اے کے ریاستی کنٹرول سے نکلنے کے بعد ایوی ایشن ایکو سسٹم کی تنظیمِ نو ممکن ہو گئی ہے۔ کراچی، لاہور اور اسلام آباد کے ہوائی اڈوں کا انتظام جی سی سی کے بین الاقوامی آپریٹرز کو آؤٹ سورس کرنے کے حوالے سے بات چیت کا مستقبل اب زیادہ واضح ہے۔ تاہم امید پرستی کو حقیقت کے ترازو میں تولنا ضروری ہے۔ پی آئی اے کی بحالی کی چڑھائی بہت کڑی ہو گی۔ عملہ سیاسی طور پر سب سے زیادہ حساس موضوع ہے۔ ملازمت کے تحفظ کے 12 ماہ کے وقفے کے باوجود ایئر لائن میں بنیادی طور پر عملہ ضرورت سے زیادہ ہے۔ اصل امتحان دوسرے سال میں ہو گا، جب عملے میں کٹوتی ناگزیر ہو جائے گی۔ عالمی آڈٹ، انجینیئرنگ سٹینڈرڈز اور آپریشنل کمپلائنس بھی کوئی رعایت نہیں دیتے۔ اس خطرے کو کم کرنے کے لیے، ایک تجربہ کار بین الاقوامی ٹیکنیکل پارٹنر، ممکنہ طور پر جی سی سی سے، حاصل کرنا فوری ترجیح ہونی چاہیے۔ ایسی مہارت کے بغیر کنسورشیم کو سرمایہ کاری ضائع کرنے کا خطرہ ہے جبکہ اسے زیادہ منافع بخش روٹس کو کھولنے میں جدوجہد کا سامنا ہو گا۔ ریگولیٹری کمپلائنس ویلیو بڑھانے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ منافع کی بحالی کے لیے یورپی، برطانوی اور شمالی امریکی فضائی حدود تک دوبارہ رسائی حاصل کرنا ضروری ہے۔ بین الاقوامی سیفٹی بینچ مارکس پر پورا اترنے میں کوئی بھی تاخیر کاروباری کیس کو نمایاں طور پر متاثر کرے گی۔ مسابقت کی پالیسی پر بھی کڑی نظر رکھنے کی ضرورت ہو گی۔ ناکام بولی دہندگان کے پاس پہلے ہی مقامی ایئر لائنز موجود ہیں، جس سے پاکستان کے ریاستی اجارہ داری سے پرائیویٹ اجارہ داری کی طرف منتقل ہونے کا خطرہ ہے۔ اگر اس کی روک تھام نہ کی گئی تو یہ صارفین کی فلاح و بہبود کو متاثر کر سکتا ہے اور خود نجکاری کی قانونی حیثیت کو کمزور کر سکتا ہے۔ پی آئی اے کی نجکاری کی اصل اہمیت خود ایئر لائن میں نہیں، بلکہ اس مثال میں ہے جو یہ پاکستان کی معاشی گورننس اور مستقبل کی نجکاریوں کی ساکھ کے لیے قائم کرتی ہے۔ جی سی سی اور عالمی سرمایہ کاروں کے لیے، مقامی سرمایہ کاروں کی شمولیت اصلاحاتی فریم ورک پر اعتماد کا اشارہ ہے، جو سمجھے جانے والے جیو پولیٹیکل خطرات کو کم کرتی ہے اور ایس آئی ایف سی ماڈل کی توثیق کرتی ہے۔ اگر ریگولیٹری ڈسپلن برقرار رہتا ہے تو یہ ڈیل پاکستان کی وقفے وقفے سے مانگے جانے والے بیل آؤٹس سے چھٹکارے کی جانب منتقلی کا نشان بن سکتی ہے۔ (بشکریہ عرب نیوز) نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ پی آئی اے نجکاری خلیجی تعاون کونسل آئی ایم ایف سرکاری تحویل سے نجی شعبے میں منتقلی پی آئی اے کے لیے امید تو لائی ہے، مگر بحالی کا سفر آسان نہیں، کیوں کہ اسے ریگولیٹری چیلنجز اور مسابقت کے خطرات درپیش ہیں۔ ڈاکٹر وقار احمد ہفتہ, دسمبر 27, 2025 - 07:30 Main image:
19 اگست 2004 کو اسلام آباد کے انڈور سپورٹس سینٹر میں ایک شخص قومی فضائی کمپنی پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کے اشتہار پر مشتمل بل بورڈ کی صفائی کر رہا ہے (جیول صمد/ اے ایف پی)
نقطۂ نظر type: news related nodes: عارف حبیب کنسورشیم نے پی آئی اے کی بولی جیت لی پی آئی اے کی نجکاری : 10 سوالات ’گریٹ پیپل ٹو فلائی ود‘: پی آئی اے کے وہ ریکارڈ جو آج بھی قائم ہیں پی آئی اے کو آئندہ اپریل سے نئے مالکان چلائیں گے: مشیر نجکاری SEO Title: بیل آؤٹ سے نجی ملکیت تک: پی آئی اے کی نئی صبح copyright: show related homepage: Hide from Homepage