ایک نوجوان کسی نہ کسی طرح ڈنکی لگا کر یورپ پہنچ جاتا ہے اور پیچھے پورا گاؤں خواب بُننے لگتا ہے۔ چند تصویریں، دو تین ویڈیوز اور کبھی کبھار بھیجی گئی رقم، دیکھتے ہی دیکھتے ایک اجتماعی فریب میں بدل جاتی ہے۔ پنجاب، خاص طور پر گجرات، سے شروع ہونے والا یہ جنون اب خیبرپختونخوا سمیت پورے پاکستان تک پھیل چکا ہے۔ کوئی یہ نہیں پوچھتا کہ یورپ پہنچنے والے کتنے ہیں، اور راستے میں بکھر جانے والی لاشوں کا حساب کون رکھتا ہے؟ یورپ پہنچنے والوں کی اپنی الگ داستان ہے، مگر اصل کہانیاں وہ ہیں جو کبھی مکمل نہیں ہوتیں۔ وہ نوجوان جو سرحدوں، صحراؤں، پہاڑوں اور سمندروں میں کہیں گم ہو جاتے ہیں۔ ان کی خبریں چند دن سوشل میڈیا پر گردش کرتی ہیں، پھر خاموشی چھا جاتی ہے۔ دو روز قبل کراچی سے تعلق رکھنے والے معروف سماجی کارکن ولی اللہ معروف نے نوشہرہ کے علاقے اکوڑہ خٹک سے تعلق رکھنے والے ارمان اللہ کے بارے میں ایک فیس بک پوسٹ لکھی۔ ارمان اللہ سات اکتوبر 2025 سے لاپتہ تھے۔ گذشتہ ہفتے ان کے کزن نے سوشل میڈیا پر گردش کرتی ایک ویڈیو میں ان کی لاش پہچان لی۔ یہ لمحہ شاید اس خاندان کے لیے موت کی تصدیق سے زیادہ اذیت ناک تھا، ایک ایسی حقیقت جس کا سوچنا بھی تکلیف دہ ہوتا ہے۔ یونان کشتی حادثے میں جان سے جانے والے تین پاکستانیوں کی میت 20 جولائی، 2023 کو لاہور ایئرپورٹ پر ان کے ورثا کے حوالے کی جا رہی ہیں (اوورسیز پاکستانیز فاؤنڈیشن) ولی اللہ کی پوسٹ پر ایران میں پاکستانی سفارت خانے نے فوری کارروائی کی۔ شناخت کی تصدیق ہوئی، اہلِ خانہ سے رابطہ قائم کیا گیا اور جسدِ خاکی کو وطن واپس بھیجنے کے انتظامات شروع ہوئے۔ تہران میں پاکستانی سفیر مدثر صاحب نے عوام سے اپیل کی کہ انسانی سمگلروں کے جھانسے میں نہ آئیں، مگر سوال یہ ہے کہ کیا ایسی اپیلیں ان لوگوں کے دل تک پہنچتی ہیں، جو غربت اور بے یقینی کے ہاتھوں پہلے ہی ہار چکے ہوتے ہیں؟ انفرادی کہانیوں سے ہٹ کر اگر اس المیے کو اعدادوشمار کی زبان میں دیکھا جائے تو تصویر اور بھی خوفناک ہو جاتی ہے۔ گذشتہ پانچ برس یعنی 2020 سے 2025 کے دوران، انسانی سمگلنگ کے خلاف کارروائیوں میں پانچ ہزار سے زائد سمگلرز گرفتار کیے گئے۔ اسی عرصے میں ایک لاکھ بیس ہزار سے زیادہ مسافروں کو پاکستان کے ایئرپورٹس پر سفر سے روک دیا گیا، وہ نوجوان جو شاید چند گھنٹوں بعد کسی ایسے راستے پر ڈال دیے جاتے، جہاں واپسی کا کوئی نشان نہیں ہوتا۔ پاکستان ایران سرحد سے ہزاروں گرفتار ہوجاتے ہیں، مگر بڑی تعداد سرحد پار کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے۔ حکام کے مطابق گذشتہ پانچ برس میں 80 ہزار سے زائد پاکستانیوں کو بیرونِ ملک سے ڈی پورٹ کر کے واپس بھیجا گیا۔ کشتیوں کے بڑے حادثات اور دیگر سانحات میں اموات کی تعداد 500 سے 700 کے درمیان بتائی جاتی ہے، مگر اصل سانحہ وہ ہے جو کبھی ریکارڈ کا حصہ ہی نہیں بن پاتا۔ لاپتہ اور غیر مصدقہ اموات کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق دس ہزار سے زائد نوجوان ایسے ہیں، جن کا انجام آج تک معلوم نہیں ہو سکا۔ یہ محض اعدادوشمار نہیں۔ ہر عدد کے پیچھے ایک نام، ایک ماں کے نہ رکنے والے آنسو، ایک باپ کی خاموشی اور ایک گھر کی اجڑی ہوئی دنیا چھپی ہے۔ انسانی سمگلر خواب بیچتے ہیں۔ شاید ہی وہ کسی کو واقعی یورپ کی سرزمین تک پہنچا دیں، لیکن یہ بات یقینی ہے کہ وہ ارمان اللہ جیسے بے شمار نوجوانوں سے زندگیاں چھین لیتے ہیں۔ چند سال قبل کشتیوں کے المناک حادثات کے بعد ایف آئی اے نے کریک ڈاؤن تیز کیا، منظم نیٹ ورکس توڑے گئے۔ گذشتہ ایک سال میں ہزاروں افراد کو ایئرپورٹس سے اور ہزاروں کو ایران بارڈر سے واپس بھیجا گیا۔ سچ یہ ہے کہ جو پکڑے جاتے ہیں، وہ خوش نصیب ہوتے ہیں، کم از کم زندہ لوٹ آتے ہیں۔ مگر جو نہ پکڑے گئے، ان میں سے بہت سے کبھی واپس ہی نہ آ سکے۔ کوئی پہاڑوں میں دم توڑ دیتا ہے، کوئی ریگستان میں پیاس سے اور کوئی سمندر کی موجوں میں دفن ہو جاتا ہے۔ پیچھے رہ جانے والے ماں باپ، بہن بھائی اور بچے برسوں ایک سوال کے ساتھ جیتے رہتے ہیں: ’وہ کہاں ہے؟‘ نہ کوئی قبر، نہ آخری دیدار، صرف ایک نہ ختم ہونے والا انتظار۔ مزید پڑھ اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field) ارمان اللہ جیسے چند ہی خوش نصیب ہوتے ہیں جن کی لاش گھر پہنچ جاتی ہے۔ باقیوں کے نام شاید کبھی سامنے ہی نہ آئیں۔ انسانی سمگلنگ محض ایک غیر قانونی کاروبار نہیں، یہ ایک خاموش قتلِ عام ہے۔ غریبوں کے خواب خریدے جاتے ہیں، وہ بھی اس رقم سے جو اکثر ادھار لی جاتی ہے۔ نوجوانوں کو یقین دلایا جاتا ہے کہ چند ہفتوں کی مشقت کے بعد یورپ میں نئی زندگی ان کا انتظار کر رہی ہے۔ حقیقت مگر رشوت، تشدد، قید، بھوک، پیاس اور مسلسل خوف سے عبارت ہوتی ہے۔ ایران، ترکی اور دیگر راستوں پر روز سینکڑوں کہانیاں دفن ہو جاتی ہیں۔ یہ سوال بار بار سامنے آتا ہے کہ آخر نوجوان یہ راستہ کیوں چنتے ہیں؟ جواب کسی ایک لفظ میں نہیں، مگر بے روزگاری، معاشی عدم استحکام، مہنگائی اور مستقبل سے مایوسی اس فہرست میں سب سے اوپر ہیں۔ جب ایک محلے کا لڑکا ’کامیاب‘ نظر آتا ہے تو باقیوں کو لاشوں کا حساب یاد نہیں رہتا۔ ریاست اور حکومت کی ذمہ داری صرف سمگلروں کے خلاف کارروائی تک محدود نہیں ہونی چاہیے۔ نوجوانوں کو اپنے ہی ملک میں باعزت روزگار اور امید دینا ہو گی۔ تعلیمی اداروں، میڈیا اور سماجی سطح پر یہ سچ سامنے لانا ہو گا کہ غیر قانونی ہجرت کوئی شارٹ کٹ نہیں، بلکہ اکثر ایک اندھی گلی ہے۔ خاندانوں کو بھی رک کر سوچنا ہو گا۔ یورپ سے آنے والی چند ویڈیوز اور رقوم زندگی کی ضمانت نہیں ہوتیں۔ یہ صرف ارمان اللہ کی کہانی نہیں، بلکہ ان سینکڑوں، ہزاروں نامعلوم نوجوانوں کی داستان ہے جو کبھی خبروں کا حصہ نہیں بنتے۔ آخر میں سوال ہم سب سے ہے: کیا ہم اپنے نوجوانوں کو خواب بیچنے والوں کے رحم و کرم پر چھوڑتے رہیں گے، یا انہیں اپنے وطن میں جینے کی وجہ دیں گے؟ کیونکہ اگر بہتر زندگی کا خواب، زندگی ہی چھین لے، تو وہ خواب نہیں، ایک بھیانک دھوکہ ہے۔ نوٹ: یہ تحریر بلاگر کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ یورپ انسانی سمگلنگ ایران یورپ پہنچنے والوں کی اپنی الگ داستان ہے، مگر اصل کہانیاں وہ ہیں جو کبھی مکمل نہیں ہوتیں۔ وہ نوجوان جو سرحدوں، صحراؤں، پہاڑوں اور سمندروں میں کہیں گم ہو جاتے ہیں۔ نعمت خان ہفتہ, دسمبر 27, 2025 - 07:45 Main image:
28 نومبر 2024 کی اس تصویر میں سپین کی سی سرچ اینڈ ریسکیو ایجنسی کی جانب سے ریسکیو کی گئی 136 تارکین وطن پر مشتمل سینیگال کی ایک کشتی سپین کے کینیری جزیرے ایل ہیرو کی لا ریسٹنگا بندرگاہ پر پہنچتے ہوئے (اے ایف پی)
بلاگ type: news related nodes: سپین جانے والی کشتی کو حادثہ، 44 پاکستانی ڈوب گئے: این جی او ڈنکی سے امریکہ پہنچنے والے انڈین شہری ہتھکڑیوں میں واپس ڈنکی: ’ڈونکی‘ کے نام سے مشہور خطرناک امیگریشن روٹ کیا ہے؟ انسانی سمگلنگ کے نیٹ ورکس کے گرد گھیرا مزید تنگ کیا جائے: وزیراعظم SEO Title: بہتر زندگی کا شارٹ کٹ یا موت کا گڑھا؟ copyright: show related homepage: Hide from Homepage