روس کے شہر روستوف آن دون سے تعلق رکھنے والی گالا نے نہ صرف دنیا کو دیکھنے کا خواب دیکھا، بلکہ اسے ایک رکشے پر بیٹھ کر پورا کرنے کا فیصلہ کیا اور یہی جنون انہیں پاکستان لے آیا۔ جب انڈپینڈنٹ اردو کی ٹیم کراچی میں موجود گالا سے ملاقات کے لیے پہنچی تو وہ اپنے رکشے پر پاکستان اور روس کے پرچم چسپاں کر رہی تھیں، جو اس بات کی طرف اشارہ دے رہا تھا کہ وہ پاکستان کا مثبت چہرہ دکھانا چاہتی ہیں۔ گالا کو صرف روسی زبان ہی بولنی آتی تھی، لہذا ہم نے ٹرانسلیٹر کے ذریعے ان کا انٹرویو شروع کیا کہ آخر انہوں نے اپنے سیاحتی سفر کے لیے رکشے کا ہی انتخاب کیوں کیا؟ مزید پڑھ اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field) انہوں نے بتایا: ’پاکستان میں ہچ ہائیکنگ شاید محفوظ نہ ہو، اس لیے میں نے خود سے سوال کیا: موٹر سائیکل یا رکشہ؟ اور میں نے رکشے کو چنا۔ ایک سست، شور مچاتا، لیکن مکمل طور پر پاکستانی تجربہ۔‘ کراچی سے چائنہ بارڈر تک رکشے کا انتخاب کرنا نہ صرف دلچسپ بلکہ حیران کن بھی ہے۔ اس حوالے سے گالا نے بتایا: ’میں ایک سیاح نہیں، ایک جستجو کرنے والی ہوں۔‘ انہوں نے بتایا: ’آرمینیا، جارجیا، ایران، عمان اور دبئی کی سرزمینوں سے ہوتی ہوئی میں پاکستان پہنچی۔ وہ ملک جس کے بارے میں، میں نے ہمیشہ سنا کہ یہاں کے لوگ مہمان نواز، دل سے خالص اور مسکراہٹوں سے بھرپور ہیں۔‘ گالا نے بتایا کہ ان کے اس جنون کو یورا نامی ایک یوٹیوبر نے ہوا دی، جنہوں نے جنوبی امریکہ میں پیڈی کیب پر سفر کر کے دنیا کو حیران کر دیا۔ انہوں نے بھی ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے پاکستان کے اس سفر کا آغاز کیا ہے، جو بقول گالا ’صرف جغرافیائی نہیں، بلکہ ذاتی، روحانی اور ثقافتی دریافت کا سفر بھی ہے۔‘ گالا اپنے رکشے پر پاکستان اور روس کے پرچم چسپاں کرتے ہوئے (صالحہ فیروز خان/ انڈپینڈنٹ اردو) اگر رکشہ کہیں خراب ہوتا ہے یا کام کرنا بند کردے تو کیا متبادل ہوگا؟ اس سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا: ’مجھےاندازہ ہے کہ میرا پاکستان کا یہ سفر ایک ماہ سے زیادہ نہیں چلے گا۔ مگر میرے لیے ہر دن، ہر شہر، ہر چہرہ ایک نئی کتاب ہے۔ اگر کبھی کوئی رکاوٹ آئی، تو میں رکشہ بیچ کر عوامی ٹرانسپورٹ سے سفر جاری رکھوں گی۔ میرے پاس خیمہ ہے، مقامی سم کارڈ ہے، گوگل ٹرانسلیٹ ہے اور سب سے بڑھ کر میرے اندر کا حوصلہ۔‘ انہوں نے بتایا کہ رکشہ چلانا آسان نہیں، خاص طور پر جب آپ اکیلے ہوں اور سامنے ہجوم سے بھرے شہر ہوں۔ ’میں دھیرے دھیرے سیکھ رہی ہوں ایک مقامی رکشہ ڈرائیور سے۔ میں محتاط ہوں، مگر پُرامید بھی۔‘ روسی خاتون کو پاکستانی کھانوں نے بھی متاثر کیا اور انہوں نے یہاں سبزی، پالک پنیر، نان، پراٹھے اور کڑک مصالحہ چائے کا خاص طور پر لطف اٹھایا۔ بقول گالا: ’ہر نوالے، ہر چسکی میں پاکستان کی ثقافت اور محبت کی جھلک تھی۔‘ بقول گالا: ’لوگ مجھ سے پوچھتے ہیں کہ اس سفر سے کیا حاصل ہوگا؟ تو میرا جواب سادہ ہے کہ دنیا کے لیے یہ پیغام کہ اب بھی اس زمین پر محبت، ہمدردی اور خیر خواہی زندہ ہے۔‘ سیاح رکشہ روسی خاتون گالا کو پاکستانی کھانوں نے بھی متاثر کیا اور انہوں نے یہاں سبزی، پالک پنیر، نان، پراٹھے اور کڑک مصالحہ چائے کا خاص طور پر لطف اٹھایا۔ صالحہ فیروز خان ہفتہ, دسمبر 27, 2025 - 09:45 Main image:
روسی سیاح گالا کراچی میں اپنے رکشے کے ساتھ پوز دیتے ہوئے (صالحہ فیروز خان/ انڈپینڈنٹ اردو)
میری کہانی jw id: umPXkoHl type: video related nodes: نیپال میں رکشہ ڈرائیور اور اُس کا کتا سیاحوں کے دل جیتنے لگے جرمن سیاح جوڑا پاکستانی دال اور بریانی کے مداح کراچی: لیاری کی ’ڈرائیور باجی‘ جنہیں رکشے والے ’استاد‘ کہتے ہیں انڈیا کا گنیز ورلڈ ریکارڈ توڑنے والے پاکستانی چنگچی رکشہ ڈرائیور SEO Title: کراچی سے چائنہ بارڈر تک رکشے میں سفر کرنے والی روسی سیاح copyright: show related homepage: Show on Homepage