شمالی انڈیا کی ریاست اتر پردیش کے سکول کرسمس کے موقعے پر کھلے رہے حالانکہ اس موقعے پر سرکاری چھٹی ہوتی ہے۔ سکول کھلنے رہنے کی وجہ یہ ہے کہ حکومت نے انہیں سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کی 100 ویں سالگرہ منانے کا حکم دیا تھا۔ ذرائع ابلاغ کی اطلاعات کے مطابق ریاست کے محکمہ پرائمری تعلیم کی جانب سے جاری ایک حکم نامے میں کرسمس کے موقعے پر طلبہ کی حاضری لازمی قرار دی گئی اور سکولوں کو ہدایت کی گئی کہ وہ واجپائی کی تعظیم میں تقاریر، ثقافتی پروگرام اور یادگاری سرگرمیوں کا اہتمام کریں۔ ناقدین نے کہا کہ یہ حکم ہندو رکھشک جماعت بجرنگ دل کے اس مطالبے کے بعد جاری ہوا کہ 25 دسمبر کو کرسمس منانے کی بجائے ’گڈ گورننس ڈے‘ اور ’بال گورو دیواس‘ یا بچوں کے یوم فخر کے طور پر منایا جائے۔ ’گڈ گورننس ڈے‘ 25 دسمبر کو واجپائی کی ولادت کی سالگرہ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ یہ رواج اس کے بعد متعارف کروایا گیا جب یہ پارٹی، جس کی قیادت اب نریندر مودی کر رہے ہیں، 2014 میں انڈیا میں اقتدار میں آئی۔ بجرنگ دل اور بی جے پی دونوں ایک وسیع ہندو قوم پرست نظام کے کلیدی عناصر ہیں جسے عام طور پر سنگھ پریوار کہا جاتا ہے۔ In India's Madhya Pradesh, members of Bajrang Dal and affiliated organizations interrupted a prayer meeting at a Catholic church, vandalizing property and assaulting attendees. #India #MadhyaPradesh #centristnation pic.twitter.com/WMVRpMEV6E — Centrist Nation TV (@centristnattv) December 24, 2025 اٹل بہاری واجپائی، جو 1924 میں پیدا ہوئے، نے ابتدا میں راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے ایک کارکن کے طور پر کام کیا۔ آر ایس ایس سنگھ پریوار کا نظریاتی مرکز ہے۔ بعد میں وہ اس سیاسی تنظیم کی طرف منتقل ہوئے جو بالآخر بی جے پی بن گئی۔ وہ رواں صدی کے آغاز کے قریب تقریباً چھ سال تک انڈیا کے وزیراعظم رہے اور 16 اگست 2018 کو چل بسے۔ اتر پردیش میں 53 سالہ ہندو سنت یوگی آدتیہ ناتھ کی حکومت ہے اور وہ بی جے پی کے اعلیٰ رکن ہیں۔ آدتیہ ناتھ مسلمانوں اور ملک کی دیگر مذہبی اقلیتوں کے خلاف اشتعال انگیز بیانات دینے کے لیے بدنام ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے 2017 میں کہا کہ ’آدتیہ ناتھ اتر پردیش کے سب سے زیادہ تقسیم پیدا کرنے والے سیاست دانوں میں سے ایک ہیں۔ وہ نفرت انگیز تقاریر کے عادی ہیں جن سے اقلیتی گروپوں، خاص طور پر مسلمانوں کے خلاف امتیاز اور دشمنی کو ہوا دیتی ہیں۔‘ اس سال کرسمس سے قبل، ملک بھر میں ہندو مت کے رکھشکوں نے تقریبات میں خلل ڈالنے کی کوششیں کیں، جس کے نتیجے میں مسیحی برادری پر حملوں میں تیزی آئی۔ انہوں نے گرجا گھروں کو نقصان پہنچایا۔ عبادت کے اجتماعات میں خلل ڈالا۔ کرسمس کے گیت گانے والوں کو ہراساں کیا اور تہوار کے موقعے پر کی گئی سجاوٹ کو نقصان پہنچایا۔ مسیحی برادری کی حامی تنظیم اوپن ڈورز نے کہا کہ اس نے کرسمس کی تقریبات یا گرجا گھروں کی عبادت میں خلل ڈالنے کے 60 سے زائد واقعات کو دستاویزی شکل دی ہے۔ اطلاعات کے مطابق اتر پردیش میں بجرنگ دل نے حکام سے سکولوں میں کرسمس کی تقریبات کو روکنے کی درخواست کی۔ اس گروپ نے استدلال کیا کہ طلبہ کو اس کی بجائے ’انڈیا کی اقدار‘ سکھائی جائیں اور کرسمس سرگرمیوں کی بجائے واجپائی کی شاعری پڑھ کر سنانے اور مضمون نویسی کے مقابلے منعقد کرانے کی تجویز دی۔ ریاستی حکومت کا یہ حکم جلد ہی جاری ہوا اور مسیحی تنظیموں اور تعلیمی حلقوں کی طرف سے سخت تنقید کا باعث بنا، جن کا کہنا تھا کہ اس سے مذہبی اقلیتوں کو الگ تھلگ کیا جا رہا ہے اور سرکاری تعلیم کے سیکولر مزاج کو کمزور کیا جا رہا ہے۔ آل انڈیا کرسچن کونسل کے جان دیال نے اس ہدایت کو ’مسیحی کیلینڈر کے سب سے مقدس دن کو جان بوجھ کر نشانہ بنانے‘ کے طور پر بیان کیا۔ Indian extremists destroying Christmas Decorations. Why are they soo insecure? pic.twitter.com/n3rEovMsZl — Mohsin Ali (@Mohsin_o2) December 24, 2025 مکتوب میڈیا کے مطابق جان دیال نے کہا کہ ’یہ فیصلہ موجودہ انتظام کے تحت مسیحی برادری کو الگ تھلگ کرنے کے مسلسل اور تیز ہوتے ہوئے رجحان کی عکاسی کرتا ہے۔ ‘ مکتوب میڈیا انڈیا میں اقلیتوں کے معاملات رپورٹ کرنے والا ادارہ ہے۔ کیتھولک بشپز کانفرنس آف انڈیا نے اس تہوار کے سیزن میں مسیحی برادری پر حملوں کی مذمت کرتے ہوئے انہیں اقلیتی برادری کے آئینی حقوق کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا۔ اس گروپ نے ایک بیان میں کہا کہ ’یہ مخصوص واقعات، خصوصاً کرسمس کے گیت والے پرامن لوگوں اور گرجا گھروں میں عبادت کے لیے جمع ہونے والے افراد کے خلاف، انڈیا کے مذہبی آزادی کے آئینی تحفظ اور بغیر خوف کے زندہ رہنے اور عبادت کرنے کے حق کو شدید طور پر کمزور کرتے ہیں۔‘ اس گروپ نے مرکزی ریاست چھتیس گڑھ میں مسیحی برادری کے خلاف ’نفرت سے بھرپور ڈیجیٹل پوسٹرز‘ کے گردش کرنے کی نشاندہی بھی کی۔ کرسمس کی تقریبات میں خلل ڈالنے کے واقعات میں اضافہ اس کے بعد ہوا جب سنگھ پریوار کے ایک اور گروپ وشو ہندو پریشد نے ہندوؤں سے ان تقریبات سے دور رہنے کی اپیل کی۔ قبل ازیں رواں ماہ ہندوؤں کے نام ایک خط میں، گروپ کے رہنما سریندر گپتا نے اعلان کیا کہ دیگر مذاہب کے تہواروں میں شرکت ’دوسرے عقائد کی سماجی قبولیت‘ کا باعث بن سکتی ہے۔ گروپ نے دکان داروں اور کاروباری اداروں کی جانب سے ’ہیپی کرسمس‘ یا ’میری کرسمس‘ جیسے پیغامات آویزاں کرنے پر بھی اعتراض کیا اور دلیل دی کہ محض تجارتی فائدے کے لیے ایسا کرنا ہندوؤں میں ’ثقافتی الجھن اور اپنی تذلیل‘ کو بڑھاوا دیتا ہے۔ انہوں نے ہندو صارفین سے کہا کہ وہ ایسے اداروں سے خریداری سے گریز کرنے پر ’غور کریں۔‘ As the world watched, an unruly mob vandalised Christmas festivities in Raipur today Shame on those who did it Shame on those who patronise them Shame on all those who remained quiet Shame on you Mr Modi, this happened on your watch What have you done to my beautiful India? pic.twitter.com/SS6dElICTr — Supriya Shrinate (@SupriyaShrinate) December 25, 2025 مسیحی انڈیا کی آبادی کا تقریباً 2.3 فیصد ہیں۔ برادری کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ انہیں بڑھتی ہوئی دشمنی کا سامنا ہے۔ ان الزامات کی حکمران بی جے پی ماضی میں تردید کرتی رہی ہے۔ مسیحی حقوق کی تنظیموں کے مطابق مسیحی برادری کے خلاف جبر کے واقعات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے اور یونائیٹڈ کرسچن فورم نے اس سال جنوری سے اکتوبر کے درمیان مسیحیوں پر 600 سے زائد حملوں کو دستاویزی شکل دی ہے جن میں ہجوم کے ہاتھوں تشدد، سرعام تذلیل، گرجا گھروں میں خلل ڈالنا اور گھروں کو مسمار کرنا شامل ہے۔ مذہب تبدیل کرنے کے خلاف قوانین کے بڑھتے ہوئے استعمال پر بھی تشویش میں اضافہ ہوا ہے، خاص طور پر ان ریاستوں میں جہاں بی جے پی کی حکومت ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ قوانین اکثر جبر کی روک تھام کی بجائے مسیحی اور دیگر اقلیتوں کو ہراساں کرنے اور مجرم ٹھہرانے کے لیے غلط طور پر لاگو کیے جاتے ہیں۔ اس وقت ایسے قوانین 12 ریاستوں میں نافذ ہیں۔ صرف اس سال ان قوانین کے مسیحی افراد کے خلاف 123 فوجداری مقدمات درج کیے گئے۔ مزید پڑھ اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field) بعض ہندو گروپوں کا دعویٰ ہے کہ مسیحی جبر یا ترغیب کے ذریعے ہندوؤں کا مذہب تبدیل کر رہے ہیں۔ یہ ایک ایسا بیانیہ ہے جسے ناقدین کے مطابق مذہب تبدیلی کے خلاف قوانین اور انڈیا میں مسیحی برادریوں کے خلاف مخصوص ہراسانی کو جائز ٹھہرانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ غیر منافع بخش ادارے اے ڈی ایف انٹرنیشنل کی ایشیا ایڈووکیسی کی ڈائریکٹر تہمینہ اروڑا نے رواں سال یورپی پارلیمنٹ کے ارکان کو بتایا کہ ’انڈیا میں مسیحیوں کو کسی غلط کام پر نہیں بلکہ محض جمع ہونے، عبادت کرنے یا اپنے پڑوسیوں کی مدد کرنے پر سزا دی جاتی ہے۔ ’حتیٰ کہ انڈیا کی سپریم کورٹ نے بھی حال ہی میں نشاندہی کی کہ مذہب تبدیل کرنے کے خلاف قوانین کو مسیحیوں کے خلاف غلط طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔‘ حالیہ حملوں کے بعد، مرکزی اپوزیشن جماعت کانگریس نے کہا: ’جبل پور اور دہلی سے لے کر چھتیس گڑھ، کیرالہ، اوڈیشہ اور اتراکھنڈ تک، اور کئی دیگر مقامات پر، ہم اقلیتی برادریوں کو منظم طور پر نشانہ بنتے دیکھ رہے ہیں۔ ایسے واقعات ہماری قوم کی حالت کے بارے میں سنگین خدشات کو جنم دیتے ہیں، جس کی شناخت ہمیشہ اتحاد اور تنوع کی قوت سے رہی ہے۔‘ وزیراعظم نے حالیہ حملوں پر کوئی تبصرہ نہیں کیا، تاہم انہوں نے ایکس پر ایک ویڈیو شیئر کی، جس میں وہ دہلی میں کرسمس کی صبح گرجا گھر میں ہونے والی عبادت میں شرکت کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ دی انڈپینڈنٹ نے تبصرے کے لیے بی جے پی سے رابطہ کر رکھا ہے۔ کرسمس کرسمس ٹری انڈیا اترپردیش ناقدین کا کہنا ہے کہ اتر پردیش حکومت کا یہ اقدام مذہبی اقلیتوں پر بڑھتے ہوئے دباؤ کی عکاسی کرتا ہے جبکہ مسیحی تنظیموں نے بڑھتی ہوئی دشمنی اور تشدد کے بارے میں خبردار کیا ہے۔ معروشہ مظفر ہفتہ, دسمبر 27, 2025 - 11:15 Main image:
انڈین ریاست پنجاب کے شہر امرتسر کے ایک گرجا گھر میں 25 دسمبر 2025 کو ہونے والی کرسمس کی دعائیہ تقریب میں شریک مسیحی برادری کے ارکان (اے ایف پی)
ایشیا type: news related nodes: فورمین کرسچن کالج میں کرسمس کی تیاریاں: محبت اور ہم آہنگی کی عکاس انڈیا کی جانب سے کھیلنے والے پاکستانی کبڈی کھلاڑی کے خلاف کارروائی کا عندیہ ایبٹ آباد کے مدرسے میں مسیحی بچوں کے لیے کرسمس کی تقریب انڈین سپریم کورٹ: اترپردیش میں مدرسوں پر پابندی کا حکم معطل SEO Title: اترپردیش کے سکولوں میں کرسمس کی تقریبات منسوخ کیوں کی گئیں؟ copyright: IndependentEnglish origin url: https://www.independent.co.uk/asia/india/uttar-pradesh-christmas-holiday-cancelled-schools-b2890607.html show related homepage: Hide from Homepage