ہم لوگ صبح اٹھتے ہی اپنی انگلیوں کو سکرین پر گھماتے ہیں، نوٹیفکیشنز کی بارش میں کھو جاتے ہیں، سوشل میڈیا پوسٹس پر ردعمل دیکھ کر اپنا روزمرہ احساس تلاش کرتے ہیں، لیکن اس سب کے باوجود اندر ہی اندر ایک اداسی سی محسوس کرتے ہیں۔ اس کیفیت کو ماہرین ڈیجیٹل تنہائی (Digital Loneliness) کہتے ہیں۔ یہ وہ تنہائی ہے جو لوگوں کے درمیان نہیں بلکہ سکرین کی روشنی میں محسوس ہوتی ہے۔ ایک ایسی تنہائی جس میں ہم ہر وقت جڑے رہتے ہیں لیکن احساس میں اکیلے رہ جاتے ہیں۔ پاکستان میں بھی ہم چاہے ہائی رائز اپارٹمنٹس میں رہتے ہوں یا گھروں میں، ایک عجیب تضاد کا شکار ہیں۔ ہر کوئی آن لائن روابط میں مصروف ہے مگر حقیقی تعلقات، گفتگو اور معنوی تعلق کے احساس سے دور۔ پاکستان کی نوجوان آبادی سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل میڈیا سے بھرپور جڑی ہوئی ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق 94 فیصد نوجوانوں نے اعتراف کیا کہ سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس کے زیادہ استعمال نے ان کے خاندانی تعلقات پر منفی اثر ڈالا ہے جبکہ 71 فیصد نے کہا کہ وہ اپنے خاندان سے جذباتی طور پر دور محسوس کرتے ہیں۔ اسی تحقیق میں 69 فیصد نوجوانوں نے زیادہ تنہائی محسوس کرنے کا اعتراف کیا۔ یہ وہ سنجیدہ اعداد و شمار ہیں، جو ظاہر کرتے ہیں کہ آن لائن جڑاؤ کے باوجود نوجوان اندر سے کتنا الگ تھلگ ہیں۔ مزید پڑھ اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field) یہ اعداد و شمار اگرچہ پاکستان کے ہیں، مگر اصل میں یہ ایک عالمی رجحان بھی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کی ایک تحقیق کے مطابق دنیا بھر میں بالغ افراد میں سے تقریباً 33 فیصد افراد مسلسل تنہائی محسوس کرتے ہیں، جو گذشتہ دہائی میں 23 فیصد تھی، یعنی دنیا بھر میں ایک بڑھتی ہوئی نسل ایسے احساس تنہائی کا شکار ہے جو آپس کے رابطے کے باوجود بھی اندر سے اکیلا پن محسوس کرتی ہے۔ ڈیجیٹل تنہائی کیسے پیدا ہوتی ہے؟ اس کا جواب سیدھا نہیں ہے کہ ’صرف سوشل میڈیا استعمال کرنے سے تنہائی پیدا ہو جاتی ہے،‘ بلکہ حقیقت میں یہ زندگی کی اعصابی، نفسیاتی اور سماجی پیچیدگیوں کا مجموعہ ہے۔ اس تنہائی کا ایک اہم جزو ہے نومو فوبیا (Nomophobia) یعنی موبائل فون کے بغیر رہنے کا خوف، خاص طور پر سوشل میڈیا یا انٹرنیٹ کنکشن کے بغیر۔ پاکستان میں ایک تحقیق میں پایا گیا کہ تنہائی اور نومو فوبیا کے درمیان ایک مثبت تعلق موجود ہے۔ جو نوجوان زیادہ تنہائی محسوس کرتے ہیں، وہ نومو فوبیا میں بھی زیادہ مبتلا نظر آتے ہیں۔ اسی طرح فبنگ(Phubbing) یعنی گفتگو کے دوران کسی کو نظرانداز کر کے فون دیکھنا بھی نوجوانوں میں تنہائی کو بڑھانے والا عنصر ثابت ہوا ہے۔ ایک پاکستانی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ جو لوگ زیادہ فبنگ کرتے ہیں، وہ تنہائی اور Fear of Missing Out یعنی FOMO کے شکار ہو جاتے ہیں، یعنی انہیں احساس ہوتا ہے کہ وہ کسی چیز سے پیچھے رہ گئے ہیں اور وہ ہمیشہ کچھ نہ کچھ دیکھنے یا جاننے کی دوڑ میں رہتے ہیں۔ یہ ذہنی کیفیت نہ صرف جذباتی تنہائی کو بڑھاتی ہے بلکہ کھلی سماجی بات چیت، حقیقی مکالمے اور شخصی تعلقات کو بھی متاثر کرتی ہے۔ اکثر نوجوان دوستوں کے ساتھ بیٹھے ہوتے ہیں مگر ان میں سے بہت کی نظریں سکرین پر ہی ہوتی ہیں۔ ایک ہی کمرے میں بیٹھے ہزاروں خیالات لیکن اندر سے تنہائی اور الگ تھلگ پن ہے اور یہی وہ جدید مسئلہ ہے۔ ڈیجیٹل تنہائی کا ایک اہم سبب سوشل موازنہ (Social Comparison) بھی ہے۔ سوشل میڈیا پر ہر شخص اپنی بہترین تصویر، کامیابی، خوشیاں اور دلچسپ لمحے دکھاتا ہے۔ جب ایک نوجوان اپنے آپ کو ان بہترین مناظر کے معیار سے تولنے لگتا ہے تو وہ اکثر خود کو کمتر، معمولی یا ناکافی محسوس کرتا ہے۔ 18 جون 2017 کو اسلام آباد میں نوجوان موبائل پر کرکٹ میچ دیکھ رہے ہیں (اے ایف پی) پاکستان میں کیے گئے ایک سروے کے مطابق 35 فیصد نوجوانوں نے اعتراف کیا کہ سوشل میڈیا نے ان میں کم خود اعتمادی کا احساس بڑھا دیا۔ یہ احساس خود تنہائی کے اندر ایک گہرا گڑھا بنا دیتا ہے کیونکہ نوجوان سوچتا ہے کہ ’میں جیسا ہوں، وہ بہترین معیار پر پورا نہیں اُتر رہا ‘ مگر حقیقت میں یہ معیار صرف ایک ڈیجیٹل جھلک ہے، سچائی نہیں۔ دنیا بھر میں بھی یہی رجحان دیکھنے میں آ رہا ہے۔ دنیا کی نوجوان آبادی چاہے وہ جاپان ہو، امریکہ ہو یا یورپی ملک، آج ڈیجیٹل رابطوں اور سوشل میڈیا کی وجہ سے ایسے دباؤ اور تشویش سے نبردآزما ہے، جنہیں پہلے کبھی محسوس نہیں کیا گیا تھا۔ جیسے کہ مغربی ممالک میں کیے گئے مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ زیادہ سوشل میڈیا کا استعمال نوجوانوں میں ذہنی دباؤ، بےچینی، نیند کی خرابی اور جذباتی تنہائی کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ بہت سے ممالک میں نوجوان رپورٹ کرتے ہیں کہ وہ اپنی سکرین پر وقت گزارنے کے باوجود بھی حقیقی رابطے اور معنی خیز گفت و شنید محسوس نہیں کر پاتے۔ اس عالمگیر صورت حال نے یہ ثابت کیا ہے کہ مسئلہ صرف پاکستان تک محدود نہیں ہے، لیکن پاکستان میں نوجوانوں کا تجربہ کچھ زیادہ پیچیدہ ہے کیونکہ ہمارے معاشرتی ڈھانچے، خاندانی نظام اور سماجی توقعات بھی بدل رہی ہیں۔ پاکستان معاشرتی طور پر ایک مضبوط خاندانی نظام کے ساتھ جانا جاتا ہے۔ بہت سے خاندانوں میں بزرگ، بچے اور نوجوان ایک ہی چھت کے نیچے رہتے ہیں۔ پرانی روایات میں شام کو سب ایک ساتھ بیٹھتے، کھانا کھاتے اور دن کی باتیں شیئر کرتے تھے۔ مگر آج وہ ماحول بدل رہا ہے۔ موبائل سکرینز، آن لائن گیمز اور سوشل میڈیا ایسی چیزیں ہیں جو نوجوانوں کو اپنے کمرے میں لے جا کر ان تعلقات سے دور کر دیتی ہیں، جسے ہمارے بزرگ جذباتی سپورٹ کہتے تھے۔ نوجوان ہر وقت آن لائن ہوتے ہیں، لیکن وہ اپنے ہی کمرے میں، اپنے ہی خیالات میں تنہا رہتے ہیں۔ اسی تحقیق میں یہ بھی سامنے آیا کہ 80 فیصد نوجوان اپنے آن لائن دوستوں کے ساتھ زیادہ وقت گزارتے ہیں بجائے اس کے کہ وہ اپنے خاندان کے ساتھ بیٹھ کر بات چیت کریں۔ 88.6 فیصد نے اعتراف کیا کہ وہ جذباتی بےچینی اور پریشانی محسوس کرتے ہیں، جب وہ سکرین پر بہت زیادہ وقت گزارتے ہیں۔ ڈیجیٹل تنہائی کا صرف احساس ہی نہیں، بلکہ اس کے سماجی و نفسیاتی اثرات بھی نوجوانوں کی زندگیوں پر گہرے نشان چھوڑ رہے ہیں۔ نوجوان اپنے رشتوں کو ڈیجیٹل رابطے کے ذریعے ترجیح دینے لگتے ہیں، جس سے حقیقی گفت و شنید اور احترام میں کمی آتی ہے۔ سوشل میڈیا پر مقابلہ بازی اور تنقید سے نوجوان میں خود اعتمادی کا زوال ہوتا ہے جو بالآخر ان کی جذباتی صحت پر منفی اثر ڈال سکتا ہے۔ مسلسل موازنہ اور الگ تھلگ ہونے کا احساس نوجوانوں میں فکری عدم تحفظ، اضطراب، بےچینی اور کبھی کبھار خودکشی تک کے خیالات کو بڑھا سکتا ہے۔ ایک پاکستانی تحقیق میں سوشل میڈیا کے استعمال، تنہائی اور خودکشی کے خطرے کے درمیان مضبوط ربط پایا گیا ہے۔ سکرین کے سامنے زیادہ وقت گزارنے سے نہ صرف نیند متاثر ہوتی ہے، بلکہ مستعدی، یادداشت اور جسمانی توانائی بھی متاثر ہوتی ہے۔ ڈیجیٹل تنہائی کو ختم کرنا صرف ٹیکنالوجی کو بند کرنے سے نہیں ہوگا کیونکہ مسئلہ صرف انٹرنیٹ یا موبائل کا نہیں، بلکہ انسانی تعلقات اور جذباتی حمایت کا ہے۔ اس کے لیے ہمیں چند اہم اقدامات پر غور کرنا ہوگا۔ نوجوانوں کو سوشل میڈیا کے استعمال، اس کے ممکنہ اثرات، اور توازن قائم رکھنے کی تعلیم دینی ہوگی۔ خاندانوں اور دوستوں کے بیچ روایتی باتوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ ہم ایسے دور میں جی رہے ہیں جہاں ٹیکنالوجی نے ہماری زندگیوں کو آسان بنا دیا ہے اور دنیا کو ہمارے اندر بند کر دیا ہے۔ پاکستان کا نوجوان ہر وقت آن لائن ہے مگر اندر سے کتنا تنہا ہے؟ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب نہ صرف اعداد و شمار دیتے ہیں بلکہ ہر نوجوان کے دل کی خاموش دھڑکن میں موجود ہے۔ ڈیجیٹل تنہائی کوئی فیشن نہیں، نہ ہی کوئی وقتی مسئلہ، یہ انسانی تعلقات کا بحران ہے جس سے نمٹنے کے لیے ہمیں اپنے دل، ذہن اور رشتوں کو سمجھنا ہوگا کیونکہ تعلق وہ روشنی ہے جس کے بغیر نہ دنیا روشن رہ سکتی ہے، اور نہ ہی انسان کا دل۔ نوٹ: یہ تحریر بلاگر کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ ڈیجیٹل دنیا نوجوان پاکستانی نوجوان اکثر نوجوان دوستوں کے ساتھ بیٹھے ہوتے ہیں مگر ان میں سے بہت کی نظریں سکرین پر ہی ہوتی ہیں۔ ایک ہی کمرے میں بیٹھے ہزاروں خیالات لیکن اندر سے تنہائی اور الگ تھلگ پن ہے اور یہی وہ جدید مسئلہ ہے۔ رضا ہمدانی اتوار, دسمبر 28, 2025 - 11:45 Main image:
12 جولائی، 2018 کی اس تصویر میں اسلام آباد کے ایک یونیورسٹی کمپس میں نوجوان فون استعمال کر رہے ہیں (اے ایف پی)
بلاگ type: news related nodes: عالمی سکریبل پر راج کرتے پاکستانی نوجوان موبائل فون بچوں کا دماغ کیسے خراب کر رہے ہیں؟ والدین بچوں کو سمارٹ فونز کی لت سے بچانے کے لیے لینڈ لائن فون کی طرف لوٹنے لگے بچوں کو سمارٹ فون کس عمر میں دینا چاہیے؟ SEO Title: ڈیجیٹل تنہائی اور ہم سب copyright: show related homepage: Show on Homepage