بنگلہ دیش: طلبہ کی نئی سیاسی پارٹی کا جماعت اسلامی سے انتخابی اتحاد

بنگلہ دیش میں طلبہ کی قیادت میں ابھرنے والی نئی سیاسی پارٹی نے فروری میں ملک میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات سے قبل اسلامی جماعت اسلامی کے ساتھ انتخابی اتحاد قائم کر لیا ہے، جس سے طلبہ کی جماعت کے اندر اختلافات پیدا ہو گئے ہیں۔ نیشنل سٹیزن پارٹی (این سی پی) اس احتجاجی تحریک کے نتیجے میں وجود میں آئی جس نے وزیر اعظم شیخ حسینہ کو اقتدار سے ہٹا دیا تھا۔ گذشتہ سال کی احتجاجی تحریک کے بعد نیشنل سٹیزن پارٹی ملک میں دو جماعتی غلبے کے مقابل ایک معتدل اور اصلاح پسند متبادل کے طور پر خود کو پیش کرتی رہی ہے، لیکن جیسے جیسے انتخابات قریب آ رہے ہیں، وہ سڑکوں پر حاصل کی گئی طاقت کو ووٹوں میں بدلنے میں مشکلات کا شکار ہے۔ نیشنل سٹیزن پارٹی کے سربراہ ناہید اسلام نے اتوار کو کہا کہ جماعت نے زیادہ اتحاد کے لیے اس اتحاد میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا ہے، اور بتایا کہ امیدواروں کی حتمی فہرست پیر کو جاری کی جائے گی۔ جماعت کے دیگر رہنماؤں نے اس اتحاد کو منقسم سیاسی منظرنامے میں ایک عملی قدم قرار دیا ہے۔ تاہم جماعتِ اسلامی کے ساتھ اتحاد کے فیصلے نے پہلے ہی اندرونی کشیدگی کو جنم دے دیا ہے۔ برطانیہ میں اپنا پیشہ ورانہ کیریئر چھوڑ کر نیشنل سٹیزن پارٹی میں شامل ہونے والی ڈاکٹر تسنیم جارا، جو جماعت کی ایک نمایاں رہنما بھی تھیں، نے ہفتہ کو استعفیٰ دے دیا اور اعلان کیا کہ وہ آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑیں گی۔ جماعت کے کئی دیگر ارکان بھی مستعفی ہو چکے ہیں۔ اس اتحاد پر خاص توجہ اس لیے بھی دی جا رہی ہے کہ جماعتِ اسلامی کو طویل عرصے سے پاکستان سے بنگلہ دیش کی آزادی کی مخالفت اور 1971 کی جنگ میں مبینہ کردار پر تنقید کا سامنا رہا ہے۔ برسوں کے عدالتی مقدمات، قیادت پر پابندیوں اور سیاسی حاشیے پر دھکیل دیے جانے کے باعث جماعت کے پاس محدود مگر وفادار ووٹ بینک موجود ہے۔ بی این پی کی واپسی نیشنل سٹیزن پارٹی کے اس اقدام پر تنقید کرنے والوں کا کہنا ہے کہ اس سے جماعت کے بنیادی نظریات کو نقصان پہنچا ہے۔ ایک یونیورسٹی طالب علم نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ ’اس نظریاتی تضاد کی وجہ سے نیشنل سٹیزن پارٹی کے لیے میری اخلاقی حمایت اب باقی نہیں رہی۔‘ یہ شراکت داری ایک وسیع تر سیاسی ازسرِ نو ترتیب کے پس منظر میں سامنے آئی ہے، جہاں بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی، جو سابق وزیر اعظم خالدہ ضیا سے وابستہ ہے اور عملاً ان کے بیٹے قائم مقام چیئرمین طارق رحمان کی قیادت میں ہے، تقریباً 17 برس کی جلا وطنی کے بعد رحمان کی واپسی کے بعد دوبارہ رفتار پکڑ رہی ہے۔ مزید پڑھ اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field) 12 فروری کو ہونے والا الیکشن ایک عبوری انتظامیہ کے تحت ہوگا، جس کی قیادت نوبیل انعام یافتہ محمد یونس کر رہے ہیں۔ انہوں نے شیخ حسینہ کی برطرفی کے بعد اقتدار سنبھالا تھا اور انہیں تقریباً دو برس کے انتشار کے بعد سیاسی استحکام کی بحالی کے لیے اہم سمجھا جا رہا ہے۔ امریکہ میں قائم انٹرنیشنل ریبلکن انسٹی ٹیوٹ کے دسمبر میں کیے گئے ایک سروے کے مطابق نیشنل سٹیزن پارٹی چھ فیصد حمایت کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے، جبکہ بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی 30 فیصد اور جماعتِ اسلامی 26 فیصد حمایت کے ساتھ آگے ہیں۔ جہانگیر نگر یونیورسٹی کے حکومتی امور اور سیاست کے پروفیسر شکیل احمد کے مطابق یہ اتحاد ووٹنگ رجحانات کو بدل تو سکتا ہے، مگر نیشنل سٹیزن پارٹی کے لیے طویل مدت میں ایک بڑی سیاسی قوت بننے کی کوشش کو نقصان بھی پہنچا سکتا ہے۔ بنگلہ دیش بنگلہ دیشی ڈھاکہ بنگلہ دیش سیریز اس اتحاد پر خاص توجہ اس لیے بھی دی جا رہی ہے کہ جماعتِ اسلامی کو طویل عرصے سے پاکستان سے بنگلہ دیش کی آزادی کی مخالفت اور 1971 کی جنگ میں مبینہ کردار پر تنقید کا سامنا رہا ہے۔ روئٹرز سوموار, دسمبر 29, 2025 - 10:00 Main image:

بنگلہ دیش کی نیشنل سٹیزن پارٹی کی سینیئر رہنما تسنیم جارا 24 نومبر 2025 کو ڈھاکہ میں جماعت کے ایک انتخابی امیدوار سے بات چیت کر رہی ہیں (روئٹرز)

ایشیا type: news related nodes: طلبہ رہنما عثمان ہادی کے مبینہ قاتل انڈیا فرار ہوئے: بنگلہ دیشی پولیس بنگلہ دیشی وزارت عظمیٰ کے امیدوار طارق رحمان 18 سال بعد ڈھاکہ پہنچ گئے انڈیا کے بغیر بنگلہ دیش کے ساتھ بلاک کی تجویز پر غور ہو سکتا ہے: پاکستان طالب علم رہنما کے قتل کے بعد بنگلہ دیش میں پرتشدد مظاہرے SEO Title: بنگلہ دیش: طلبہ کی نئی سیاسی پارٹی کا جماعت اسلامی سے انتخابی اتحاد copyright: show related homepage: Hide from Homepage