وزیرداخلہ سندھ ضیا الحسن لنجار نے کہا ہے کہ ایک نو عمر لڑکی کو کالعدم بلوچستان نیشنل آرمی ( بی ایل اے) ہاتھوں خود کش حملہ آور بننے سے بچا لیا گیا ہے۔ پیر کو کراچی میں پریس کانفرنس میں انہوں نے کہا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بروقت اور مؤثر کارروائی سے کراچی ایک بڑی تباہی سے محفوظ رہا۔ انہوں نے کہا کہ متاثرہ لڑکی کی شناخت مکمل طور پر خفیہ رکھی جا رہی ہے۔ ریاست ان کی عزت، تحفظ اور مستقبل کی ضامن ہے۔ ضیا الحسن لنجار کا کہنا تھا کہ ’دہشت گردوں کا نیا نشانہ ہمارے بچے ہیں، اور سوشل میڈیا کو بطور ہتھیار استعمال کیا جا رہا ہے۔‘ انہوں نے مزید کہا کہ یہ واقعہ واضح ثبوت ہے کہ کالعدم بی ایل اے اور بی ایل ایف خواتین اور کم عمر لڑکیوں کو بطور ہتھیار استعمال کر رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ خودکش حملہ نہ اسلام میں جائز ہے، نہ انسانیت میں، اور نہ ہی بلوچ روایات میں اس کی کوئی گنجائش ہے۔ صوبائی وزیر داخلہ کے بقول: ’یہ دہشت گردی کی بدترین شکل ہے کہ اب کم عمر بچیوں کو بھی موت کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔ یہ کسی قسم کی مزاحمت نہیں بلکہ بچوں کا استحصال اور کھلی دہشت گردی ہے۔‘ اس موقعے پر ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی سندھ نے بتایا کہ 25 دسمبر کی شب ایک انتہائی حساس انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کے دوران کم عمر لڑکی کو بحفاظت تحویل میں لیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ’سوشل میڈیا پر نفرت انگیز اور انتہا پسند مواد کے ذریعے معصوم ذہن کو بتدریج زہر آلود کیا گیا۔ لڑکی والدہ سے چھپ کر موبائل استعمال کرتی رہی، دہشت گرد ہینڈلرز نے اسی کمزوری کا فائدہ اٹھایا۔‘ ایڈیشنل آئی جی نے مزید بتایا کہ تحقیقات سے ثابت ہوا کہ پاکستان مخالف اور غیر ملکی پشت پناہی یافتہ مواد کے ذریعے بچی کی ذہن سازی کی گئی۔ ایک ہینڈلر نے ہمدردی اور مدد کے بہانے رابطہ کیا اور بعد ازاں خودکش حملے پر اکسانا شروع کیا۔ ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی کے بقول: ’بچی کو کراچی بھیجا گیا۔ گھر والوں کو جھوٹ بول کر روانگی اختیار کی گئی۔ پولیس ناکوں پر چیکنگ کے باعث ہینڈلر مطلوبہ مقام تک نہ پہنچ سکا اور سازش بے نقاب ہو گئی۔‘ انہوں نے مزید بتایا کہ ڈی بریفنگ کے دوران بچی نے نیٹ ورک اور طریقہ واردات کی مکمل تفصیلات فراہم کیں۔ کم عمری کے باعث خاندان کو فوری طور پر طلب کیا گیا۔ والدہ اور بہن بھائی کراچی پہنچے۔ بچی کو مکمل تحفظ اور عزت کے ساتھ خاندان کے حوالے کیا گیا، تفتیش جاری ہے۔ پریس کانفرنس میں متاثرہ بچی کا ویڈیو بیان چلایا گیا۔ جس میں بچی نے کہا کہ سوشل میڈیا پر نفرت انگیز مواد سامنے آیا، پھر وہی مواد بار بار دکھایا جانے لگا۔ رابطہ بڑھا، لنکس اور تقاریر بھیجی گئیں، اور آہستہ آہستہ وہی سب کچھ سچ لگنے لگا۔ مزید پڑھ اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field) تحویل میں لی گئی لڑکی نے ریکارڈ کیے گئے ویڈیو پیغام میں کہا کہ ’جب رابطہ کار کو معلوم ہوا کہ میرے والد نہیں ہیں تو اس نے ہمدردی کے نام پر مجھے مزید پھنسایا۔ واٹس ایپ گروپس میں بی ایل اے کی کارروائیوں کو بہادری بنا کر پیش کیا گیا، جو سراسر دھوکا تھا۔ ’میری پڑھائی متاثر ہونے لگی اور ذہن میں یہ بات ڈالی گئی کہ جان دینا ہی سب سے بڑا مقصد ہے۔ میں نے گھر سے نکلنے کے لیے بہانہ بنایا، آج سمجھ آیا کہ میں کس تباہی کی طرف جا رہی تھی۔‘ لڑکی نے بتایا کہ ’میں بلوچ ہوں۔ ہماری روایات عورت کی عزت سکھاتی ہیں۔ عورتوں اور بچیوں کو قربان کرنا بلوچیت نہیں۔ جو لوگ قربانی کے نام پر گروپس میں شامل کرتے ہیں وہ مددگار نہیں بلکہ شکاری ہوتے ہیں۔‘ ’اگر کوئی کہے بڑا مقصد ہے اس لیے جان دے دو، تو سمجھ لو وہ تمہاری زندگی کا دشمن ہے۔‘ ویڈیو میں پیغام میں لڑکی کی والدہ نے کہا کہ ’ریاست نے ماں کی طرح میری بچی کی جان بھی بچائی اور اس کی عزت بھی مکمل طور پر محفوظ رکھی۔ عوامی مفاد میں ہم نے بیان دینے کا فیصلہ کیا تاکہ کوئی اور بچی اس جال میں نہ پھنسے۔‘ سندھ آئی جی سندھ کراچی سانحہ کراچی سندھ کے وزیر داخلہ نے کہا لڑکی کو کالعدم تنظیم بی ایل اے اس کام پر اکسایا اور ’دہشت گرد سوشل میڈیا کو بطور ہتھیار استعمال کر رہے ہیں۔‘ انڈپینڈنٹ اردو سوموار, دسمبر 29, 2025 - 15:00 Main image:
سندھ کے وزیر داخلہ ضیا الحسن لنجار کراچی میں پریس کانفرنس کر رہے ہیں (سکرین گریب / پی ٹی وی)
پاکستان type: news related nodes: سندھ تہذیب کی تباہی، ہمارے لیے خطرے کا الارم کیوں ہے؟ مشتعل افراد نے وزیر داخلہ سندھ کے گھر کو آگ لگا دی: پولیس دوسری بیوی، تین بچوں کی پھندا لگی لاشیں برآمد: کراچی پولیس SEO Title: خودکش حملے کے لیے تیار لڑکی ریسکیو ’دہشت گردوں کا نیا نشانہ بچے ہیں‘: وزیر داخلہ سندھ copyright: show related homepage: Show on Homepage