2025 کی آخری چند ساعتیں گزرے سال کو آنکھوں میں پروئے کھڑی ہیں۔ ماہ و سال گزر جاتے ہیں لیکن ان سے وابستہ یادیں تاریخ بن جاتی ہیں، وہی تاریخ جسے نہ کوئی جھٹلا سکتا ہے اور نہ ہی دفن کر سکتا ہے، جس کے ترازو میں انصاف خود کو تولنے پر مجبور اور عدالتیں سر نگوں ہوتی ہیں۔ 2025 میں شور اور زور کی کشمکش اپنے عروج پر رہی۔ شور کم ہوا نہ زور۔۔ البتہ محاذ آرائی اپنی حدوں تک ضرور گئی۔ زور نے چیخ کر کہا کہ ’تم ہو کون؟‘ شور نے جواب دیا ’میں ہی تو ہوں،‘ اور بلھے شاہ کی ’بلھیا کیہ جاناں میں کون‘ کی گردان البتہ حکومت کے حصے میں آئی۔ زور اور شور سر ٹکراتے رہے اور نتیجتاً مسلسل ڈیڈ لاک سیاست کے حصے میں آیا۔ سیاست آج بھی بند گلی میں کھڑی ہے اور راستہ کسی کے پاس نہیں۔ ایک طرف مذاکرات سے انکار تو دوسری طرف اپنی شرائط پر باہر آنے کا اصرار۔ حالات سے زیادہ واقعات نے بڑی مہارت سے ریاست اور تحریک انصاف کو آمنے سامنے لا کھڑا کیا ہے۔ ایک لکیر کھینچی جا چکی ہے، لکیر کے دونوں اطراف کھڑے حریف ایک دوسرے کو للکار رہے ہیں اور لفظی آگ تفریق کے سمندر کا پیٹ بھر رہی ہے۔ تحریک انصاف مشکل میں ہے لیکن اگر کوئی یہ بات عمران خان کو بتائے تو وہ سننے کو قطعاً تیار نہ ہوں گے۔ ان کے خیال میں تحریک انصاف اس قدر مقبول جماعت ہے کہ ان کے ایک پیغام پر عوام سڑکوں پر ہوں گے، ڈی چوک تحریر چوک بن جائے گا، حسب منشا حسب توفیق چوراہوں میں لٹکانے کا خواب پورا ہو گا جبکہ ان کی جماعت کا ہر راہنما ’قائد کا ایک اشارہ، حاضر حاضر لہو ہمارا‘ کے ساتھ صف اول میں قربانی کے لیے تیار ہو گا۔ یہ خواب ہر راہنما دیکھتا ہے مگر پیچھے مڑ کر دیکھیں تو ساتھی کم اور ناصح زیادہ دکھائی دیتے ہیں۔ دوسری جانب مقتدرہ ہے جس کو صرف طاقت کا استعمال آتا ہے سو وہ کرتی ہے۔ ڈنڈا وہ واحد حل بن جاتا ہے جو پاور پالیکٹکس کا ہتھیار ہے اور یہ ہتھیار ریاست کو استعمال کرنا خوب آتا ہے اس کے لیے ریاست بار بار ایم کیو ایم کی مثالیں دیتی نظر آتی ہے۔ آخر بت تراشنے سے پہلے توڑنے کے گر سیکھے جاتے ہیں، راہنما بنانے والے پاؤں کاٹنے کا ہنر جانتے ہیں اور تو اور مقبول کو نا معقول اور مشہور کو بے شعور کرنے میں انہیں وقت ہی کتنا لگتا ہے مزید پڑھ اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field) ستم ظریفی کہ عمران خان کسی طور قابو نہیں آ رہے۔ وجہ کوئی بھی ہو وہ جیل کو اور جیل انہیں سوٹ کر گئی ہے۔ رہی بات ان کی جماعت کی انہیں بھی خان صاحب کو جیل سے نکالنے کی کوئی خاص جلدی نہیں کیونکہ خان صاحب ایک اور ’نیلسن مینڈیلا‘ بننے کی کوششوں میں ہیں۔ اس ساری کشمکش کی واحد اور یکتا ’بینیفشری‘ ن لیگ کی حکومت ہے جو ہاتھ میں پاپ کارن لیے، انگلیاں منہ میں دبائے پردے پہ چلتی فلم کو دلچسپی سے دیکھ رہی ہے۔ وزیراعظم نے جس کسی کے بھی کہنے پر تحریک انصاف کو ’مشروط مذاکرات‘ کی پیشکش کی ہے اس کا نتیجہ حکومت بخوبی جانتی ہے جبکہ تحریک تحفظ آئین اور تحریک انصاف کا سنجیدہ گروپ مذاکرات کو غیر مشروط طور پر مان چکا ہے۔ یہ ایک احسن قدم ہے تاہم تحریک انصاف کے واضح انکار کے بعد پی ٹی آئی اپوزیشن کی صفوں میں موجود رہے گی یا وہاں سے بھی مائنس ہو جائے گی؟ پی ٹی آئی تحریک تحفظ آئین کے کندھوں پر بندوق رکھ کر چلانے کی کوششوں میں ہے تو مقتدرہ حکومت کے کندھوں پر۔ پی ٹی آئی کے پیچھے ہٹ جانے سے تحریک تحفظ آئین اور مولانا آگے بڑھ سکتے ہیں، ایسے میں تحریک انصاف کے ہاتھ کیا آئے گا؟ عمران خان تحریک انصاف کی جیل سے باہر قیادت پر اعتماد کو تیار نہیں اور تحریک تحفظ آئین عمران خان پر اعتماد سے ہچکچا رہی ہے۔ ایسے میں عمران خان نے سٹریٹ موومنٹ کی ہدایت دے رکھی ہے جس پر عمل درآمد کے لیے سہیل آفریدی خیبر پختونخوا میں ’خاطرخواہ نتائج‘ تلاش کرتے کرتے پنجاب پہنچے ہیں جہاں ازل سے انقلاب کے دشمن پنجابیوں نے کوئی خاطر خواہ جواب نہیں دیا، لہٰذا 25 کی تحریک 26 پر ملتوی ہو گئی ہے۔ مزاحمت مفاہمت کی طرف غیر مشروط گامزن ہے جبکہ انقلاب کہیں راستے میں کی بورڈ جنگجوؤں کے کمپیوٹروں سے جھانک رہا ہے۔ چلیں دیکھیں 2026 میں کیا ہوتا ہے۔ عمران خان شہباز شریف پاکستان تحریک انصاف ن لیگ حالات سے زیادہ واقعات نے بڑی مہارت سے ریاست اور تحریک انصاف کو آمنے سامنے لا کھڑا کیا ہے، لکیر کھینچی جا چکی ہے، لکیر کے دونوں اطراف کھڑے حریف ایک دوسرے کو للکار رہے ہیں۔ عاصمہ شیرازی منگل, دسمبر 30, 2025 - 06:15 Main image:
دو دسمبر 2025 کو اسلام آباد میں تحریکِ انصاف کے متوقع احتجاج کے پیشِ نظر سکیورٹی کے سخت انتظامات (انڈپینڈنٹ اردو)
نقطۂ نظر type: news related nodes: کیا صرف فیض حمید کا احتساب کافی ہے؟ اب آنکھ مچولی کا کیا فائدہ؟ نیا آئین، پرانا نظام بیانیے کی جنگ! SEO Title: تحریک انصاف کا انقلاب اور حکومت کے پاپ کارن copyright: show related homepage: Hide from Homepage