قومی زبان اور لباس کے ساتھ سوتیلا سلوک

قومی لباس اور قومی زبان دنیا میں ہمیں مختلف اقوام میں الگ اور منفرد نظر آنے میں معاون ہوتے ہیں، پر پاکستان میں چاہے وہ قومی لباس ہو، قومی زبانیں، علاقائی زبانیں ہو یا ثقافت یہ تیزی سے وفاق کی سطح پر نظر انداز کیے جا رہے ہیں۔ عام قومی شخصیات اردو نہیں بولتیں، پاکستانی لباس زیب تن نہیں کرتیں اور نہ ہی سرکاری سطح پر قومی زبان اور لباس کا رواج رائج ہے۔ میں نے مری میں کھانا کھاتے ہوئے دیکھا کہ اس ہوٹل میں زیادہ تر جونیئر سٹاف نے شیروانی پہن رکھی تھی۔ جو سینیئر بیرا ہمارے میز پر کھانا لگا رہا تھا اس نے شیروانی کے ساتھ جناح کیپ بھی پہن رکھی تھی۔ وہ بہت شفقت سے مہمانوں کو کھانا پیش کر رہے تھے ان کی عمر میں لوگ ریٹائرڈ ہوکر آرام کرتے ہیں، پر وہ بڑھاپے میں بھی کام کررہے تھے۔ کھانا کھانے والے مہمانوں میں بہت کم لوگوں نے مشرقی لباس زیب تن رکھا تھا، زیادہ تر مغربی لباس میں ہی تھے۔ اس کے علاوہ دیگر ہوٹل سٹاف نے بھی شیروانی یونیفارم کی طرح پہن رکھی تھی۔ باہر دربانوں نے شیروانی کے ساتھ سفید پگڑی پہن رکھی تھی، جب کہ ریسیپشن اور جی ایم وغیرہ سوٹ بوٹ میں تھے۔ اسی طرح اسلام آباد کے ایک معروف ہوٹل میں تمام سٹاف مغربی لباس میں ہوتا ہے پر دروازے پر کھڑا سٹاف سفید اجلی شلوار قمیض اور کالی واسکٹ میں کھڑا سب کو سیلوٹ مار کر دروازہ کھول بند کر رہا ہوتا ہے۔ ویسے تو لباس ہر کسی کا ذاتی معاملہ ہے لیکن یہ بات عیاں ہے کہ پاکستان میں زیادہ تر غریب سٹاف قومی لباس میں ہوتا ہے اور اعلیٰ سٹاف مغربی لباس میں ملبوس ہوتا ہے۔ کیونکہ قومی لباس کو جونیئر گریڈ اور غریبوں کے لیے مختص کر دیا گیا ہے تو اس پر بات کرنا ضروری ہے۔ پاکستانی اشرافیہ نے اپنے لیے مغربی لباس کو چن رکھا ہے اور اپنے ماتحت اسٹاف کے لیے قومی لباس منتخب کر رکھا ہے۔ اکثر پاکستانی اتنے غریب ہیں کہ وہ تو روز اجلی چمکتی کلف لگی شلوار قمیض بھی افورڈ نہیں کر سکتے۔ وہ لنڈا بازار جاتے ہیں اور ایک گرم جرسی، ایک گرم بنیان، ایک گرم پاجامے میں پوری سردی گزار دیتے ہیں۔ موزوں اور دستانے میں چھید ان کی غربت کی چغلی کھا رہے ہوتے ہیں، پر وہ صبر شکر سے زندگی گزار دیتے ہیں۔ اشرافیہ جو روز نیا جوڑا خرید سکتے ہیں اور غریب اس کو یونیفارم کی مانند روز نیل کلف لگا کر پہنتے ہیں۔ وہ کھدرر، کاٹن، لٹھا، سلک افورڈ نہیں کر سکتے۔ عید تہوار پر بھی پرانے جوڑے سے کام چلا لیتے ہیں۔ اشرافیہ قومی لباس اور قومی زبان کو دنیا کے سامنے متعارف کروا سکتی ہے پر غیر ملکی برینڈز کے دلدادہ ہیں وہ گوچی، پراڈا، ارمانی وغیرہ سے نیچے بات نہیں کرتے۔ اب تو اشرافیہ کی تقریبات میں انڈین ڈیزائنر نے بھی جگہ لے لی ہے جن میں سابیا سچی، ترن تہلیانی، منیش ملہوترا اور دیگر شامل ہیں۔ پاکستانی لباس بہت خوب صورت ہے انسان کسی بھی جگہ زیب تن کرسکتا ہے یہ آرام دہ ہے اور کوٹ پینٹ جتنا مہنگا بھی نہیں ہے۔ تو اس کو یونیفارم کی صورت صرف غربا اور جونئیر سٹاف کی حد تک محدود کیوں کر دیا گیا ہے؟ سپریم کورٹ کے فل کورٹ بینچ کی سماعت میں اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ قائداعظم والی شیروانی اور جناح کیپ میں ملازم ہر جج کے پیچھے ہاتھ باندھ کر کھڑے تھے۔ وہ انہیں فائلز، کاغذات دینے کے ساتھ کرسی پیش کرنے اور ہٹانے کی بھی ڈیوٹی انجام دے رہے تھے۔ مجھے بہت حیرت ہوئی کہ قومی لباس تو سب پہن سکتے ہیں تو پھر اس کو گریڈ کے حساب تقسیم کیوں کیا جا رہا ہے؟ پاکستان میں ایک بڑی شخصیت کا دورہ تھا، ان کے انتظار میں بہت سے رقاص اور ڈھولچی پنجابی لاچے کرتے، بلوچ سفید پگڑی اور گھیر والی قمیض اور گھیر والی شلوار، سندھی اور چترالی سوٹ میں ملبوس اسلام آباد میں گھاس پر بیٹھے انتظار کر رہے تھے۔ مہمان محترم اپنے ملک کے روایتی لباس میں جلوہ افروز ہوئے ہماری طرف سے سب سوٹ بوٹ میں تھے۔ ہماری ثقافت بھی وہ دیکھ لیتے اگر ان کے روٹ میں وہ راستہ بھی ہوتا جس پر رقص کرتے غربا فنکار ہمارا قومی لباس اور علاقائی لباس میں ملبوس منتظر تھے۔ پاکستان کی سندھی اجرک، سندھی ٹوپی، تھر کا کڑھائی والا گلا، بلوچی پگڑی، بلوچی سوٹ، چترال کی ٹوپی، گلگت کے کوٹ اور گرم چادریں، کشمیر کی شال اور کوٹ، کے پی کے پگڑی، پنجاب کا پھلکاری کرتا، مکیش اور چنری کے سوٹ، کاٹن لٹھا، ملتان کی نیلی اجرک، اور کیلاش کا لباس دنیا بھر پاکستان کو ایک نئی پہچان دے سکتا ہے۔ پر اس کے لیے ہمارے سیاست دانوں، فنکاروں، گلوکاروں اور سفارت کاروں کو اس کو خود پہننا ہو گا تبھی ہم اپنی ثقافت کو دنیا بھر میں روشناس کروا سکتے ہیں۔ اب اگر قومی زبان اور علاقائی زبانوں کی طرف دیکھیں تو ہر زبان خوبصورت ہے لیکن اردو زبان میری پسندیدہ ہے۔ قائد اعظم بانی پاکستان نے اردو کو پاکستان کی قومی اور سرکاری زبان قرار دیا۔ قائد اعظم نے اپنے خطاب میں کہا کہ ملک کے مختلف صوبوں کے مابین رابطہ پیدا کرنے کے لیے ایک ہی زبان ہے وہ اردو ہے۔ مزید پڑھ اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field) اردو تحریک پاکستان کی رابطہ زبان تھی، پر اردو کے ساتھ بھی دوری اختیار کرلی گئی ہے۔ آج کل کی نسل اردو سے زیادہ انگریزی کی فین ہے۔ علاقائی زبانیں تو ان کو آتی ہی نہیں ہیں۔ سرکاری سطح پر کہنے کو تو اردو سرکاری زبان ہے لیکن سب لکھنا پڑھنا انگریزی میں ہوتا ہے۔ ایوان صدر وزیراعظم ہاؤس سپریم کورٹ دفاعی اداروں میں انگریزی کا استعمال ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں ناخواندگی بہت زیادہ ہے تو لوگ اردو پڑھ لکھ نہیں پاتے تو انگریزی تو بہت دور کی بات ہے۔ اس وقت پوری قوم کو اس دوڑ میں لگا دیا ہے کہ وہ انگریزی لکھیں بولیں تاکہ وہ ماڈرن کہلائیں۔ انگریزی بھی ایک رابطے کی زبان ہے قابلیت کا پیمانہ نہیں ہے۔ میرے نزدیک جن لوگوں کو قومی اور علاقائی زبانیں آتی ہیں یہ ان کی قابلیت میں مزید نکھار پیدا کرتی ہیں۔ نئی نسل کو اردو کے قریب لانے کے لیے نصاب میں تبدیلی کرنا ہو گی۔ ان کو مشکل افسانوں، نظموں اور غزلوں کے بجائے عام فہم چیزیں پڑھائیں تاکہ ان کو زبان مشکل نہ لگے۔ آج کل بہت سے بچے اردو میں فیل ہو جاتے ہیں، اس کی بڑی وجہ انگریزی پر زیادہ توجہ اور اردو کا مشکل نصاب ہے۔ زبان ادب کسی بھی قوم کی ترقی میں معاون ہیں اپنے وطن سے محبت کرنے والے اپنی زبان اور ادب سے بہت محبت کرتے ہیں۔ اگر ہم اپنی زبان سے محبت ترک کردیں گے تو معاشرتی ادبی بہت سی روایات دم توڑ جائیں گی۔ اس کے ساتھ آگے چل کر یہ زبانیں معدوم ہو جائیں گی۔ اس لیے ان کی ترویج پر کام کرنا بہت ضروری ہے۔ نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ پاکستان لباس اردو ویسے تو لباس ہر کسی کا ذاتی معاملہ ہے لیکن یہ بات عیاں ہے کہ پاکستان میں زیادہ تر غریب سٹاف قومی لباس میں ہوتا ہے اور اعلیٰ سٹاف مغربی لباس میں ملبوس ہوتا ہے۔ جویریہ صدیق منگل, دسمبر 30, 2025 - 06:30 Main image:

لاہور میں 10 اگست 2025 کو پاکستان کے قومی پرچم کے قریب ایک کھلونے والا بچوں کو مختلف چیزیں بیچنے کے لیے موجود ہے (عارف علی / اے ایف پی)

بلاگ type: news related nodes: یونیورسٹی آف جارڈن میں اردو، مطالعہ پاکستان چیئرز ’آمدنی میں کمی‘: ڈان کا اپنی اردو ویب سائٹ بند کرنے کا فیصلہ وزیرستان کا اردو ڈراما جو موبائل پر شوٹ اور دکان پر ایڈٹ ہوا اقوام متحدہ کی پلے لسٹ میں اردو کے ساتھ پشتو غزل بھی شامل SEO Title: قومی زبان اور لباس کے ساتھ سوتیلا سلوک copyright: show related homepage: Hide from Homepage