بنگلہ دیش کی سیاست کے افق پر تین دہائیوں سے زائد عرصے تک چھائی رہنے والی شخصیت، بےنظیر بھٹو کے بعد اسلامی دنیا کی دوسری خاتون وزیرِ اعظم اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کی سربراہ بیگم خالدہ ضیا اپنے پیچھے ایک ایسی سیاسی میراث چھوڑ گئی ہیں جو تنازعات، مزاحمت اور غیر معمولی نشیب و فراز سے عبارت ہے۔ خالدہ ضیا ایک طویل علالت کے بعد منگل کو چل بسی تھیں۔ ان کی عمر 80 برس تھی۔ ایک عام گھریلو خاتون سے لے کر ’بنگلہ دیش کی آہنی خاتون‘ کہلانے تک کا ان کا سفر جنوبی ایشیا کی سیاسی تاریخ کا ایک اہم باب ہے۔ خالدہ ضیا کی زندگی صرف اقتدار اور سیاست کی کہانی نہیں تھی، بلکہ یہ ایک ذاتی المیے سے جنم لینے والی جدوجہد کی داستان تھی جس نے بنگلہ دیش کے سیاسی نقشے کو ہمیشہ کے لیے بدل کر رکھ دیا۔ وہ بےنظیر بھٹو کے بعد مسلم دنیا کی دوسری خاتون وزیرِ اعظم تھیں، جنہوں نے قدامت پسند معاشرے میں اپنی قیادت کا لوہا منوایا۔ ابتدائی زندگی اور خاموش کردار 15 اگست 1945 کو غیر منقسم ہندوستان کے صوبہ بنگال میں پیدا ہونے والی خالدہ ضیا، جن کا خاندانی نام ’پُتل‘ تھا، نے اپنی ابتدائی زندگی سیاست سے کوسوں دور گزاری۔ 1960 میں ان کی شادی پاکستان آرمی کے کیپٹن ضیاء الرحمٰن سے ہوئی، جو بعد ازاں بنگلہ دیش کے صدر بنے۔ 1971 کی جنگ اور اس کے بعد کے ہنگامہ خیز دور میں خالدہ ضیا کی حیثیت محض ایک فوجی افسر کی بیوی اور پھر خاتونِ اول کی تھی، جو زیادہ تر وقت گھر اور بچوں کی تربیت تک محدود رہتی تھیں۔ اس وقت کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ شرمیلی اور کم گو خاتون، جو تقریبات میں بھی خاموش رہتی تھیں، ایک دن بنگلہ دیش کی سڑکوں پر آمریت کے خلاف نعرے لگاتی نظر آئیں گی۔ مزید پڑھ اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field) سیاست میں ڈرامائی آمد خالدہ ضیا کی زندگی میں فیصلہ کن موڑ 30 مئی 1981 کی وہ رات تھی جب چٹاگانگ میں ایک فوجی بغاوت کے دوران صدر ضیاء الرحمٰن کو قتل کر دیا گیا۔ شوہر کے قتل نے خالدہ کو گھر کی چار دیواری سے نکل کر سیاسی اکھاڑے میں قدم رکھنے پر مجبور کر دیا۔ ضیا الرحمٰن کی بنائی ہوئی جماعت بی این پی ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھی اور قیادت کے بحران سے دوچار تھی۔ شوہر کے قتل کے بعد 1983 میں وہ بی این پی کی نائب چیئرپرسن بنیں اور 1984 میں پارٹی کی چیئرپرسن کی حیثیت سے مکمل قیادت سنبھالی۔ ناقدین کا خیال تھا کہ وہ سیاست کی سختیوں کی تاب نہیں لا سکیں گی، لیکن انہوں نے جنرل حسین محمد ارشاد کی فوجی آمریت کے خلاف جو مزاحمت دکھائی، اس نے سب کو حیران کر دیا۔ وہ سڑکوں پر نکلیں، لاٹھیاں کھائیں اور بار بار نظر بند ہوئیں، لیکن آمریت کے سامنے جھکنے سے انکار کر دیا۔ یہی وہ دور تھا جب انہوں نے اپنی حریف شیخ حسینہ واجد کے ساتھ مل کر جمہوریت کی بحالی کی تحریک چلائی، جو بالاخر 1990 میں جنرل ارشاد کے زوال پر ختم ہوئی۔ اقتدار کا عروج اور ’بیگمات کی جنگ‘ 1991 کے انتخابات بنگلہ دیش کی تاریخ کا اہم موڑ ثابت ہوئے۔ خالدہ ضیا کی قیادت میں بی این پی نے کامیابی حاصل کی اور وہ ملک کی پہلی خاتون وزیرِ اعظم بنیں۔ ان کا پہلا دورِ حکومت (1991-1996) معاشی اصلاحات اور خواتین کی تعلیم پر توجہ مرکوز کرنے کے حوالے سے یادگار رہا۔ انہوں نے پرائمری سکولوں میں لڑکیوں کی تعلیم کو مفت اور لازمی قرار دے کر ایک خاموش سماجی انقلاب کی بنیاد رکھی۔ چھ مئی 2025 کی اس تصویر میں بنگلہ دیش کی سابق وزیراعظم اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کی سربراہ خالدہ ضیا وطن واپسی پر حامیوں کو دیکھ کر ہاتھ ہلاتے ہوئے (اے ایف پی) تاہم، یہی وہ دور تھا جب بنگلہ دیشی سیاست ’بیگمات کی جنگ‘ کا شکار ہوئی۔ عوامی لیگ کی شیخ حسینہ اور بی این پی کی خالدہ ضیا کے درمیان سیاسی مخالفت ذاتی دشمنی میں بدل گئی۔ دونوں خواتین نے باری باری اقتدار سنبھالا اور اپوزیشن میں رہتے ہوئے ہڑتالوں اور احتجاج کے ذریعے ملک کو مفلوج کیا۔ اس تلخ رقابت نے بنگلہ دیشی معاشرے کو دو واضح دھڑوں میں تقسیم کر دیا۔ 2001 میں خالدہ ضیا دوسری بار بھاری اکثریت سے وزیرِ اعظم منتخب ہوئیں۔ اس بار انہوں نے جماعت اسلامی کے ساتھ اتحاد کیا، جسے سیکیولر حلقوں اور انڈیا کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ ان کے دوسرے دورِ حکومت میں جہاں معاشی ترقی کی رفتار تیز ہوئی، وہیں ملک میں انتہا پسندی کے واقعات اور کرپشن کے الزامات بھی سامنے آئے۔ ان کے بیٹے طارق رحمان پر کرپشن کے سنگین الزامات لگے، جس نے خالدہ ضیا کی سیاسی ساکھ کو شدید نقصان پہنچایا۔ زوال، قید اور تنہائی 2006 میں ان کی حکومت کے خاتمے کے بعد ملک میں سیاسی بحران پیدا ہوا اور فوج کی حمایت یافتہ نگراں حکومت قائم ہوئی۔ یہ خالدہ ضیا کے زوال کا آغاز تھا۔ انہیں اور ان کے بیٹوں کو کرپشن کے الزامات میں گرفتار کیا گیا۔ اگرچہ وہ 2008 میں رہا ہوئیں، لیکن انتخابات میں انہیں شیخ حسینہ کے ہاتھوں بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے بعد کا دور خالدہ ضیا کے لیے ذاتی اور سیاسی اذیت کا دور تھا۔ ان کے چھوٹے بیٹے عرفات رحمان کوکو کا جلاوطنی میں انتقال ہوا، جو ان کے لیے بڑا صدمہ تھا۔ 2018 میں انہیں ’ضیا یتیم خانہ ٹرسٹ‘ کرپشن کیس میں سزا سنا کر جیل بھیج دیا گیا۔ یہ ان کی سیاسی زندگی کا سب سے کڑا وقت تھا۔ وہیل چیئر تک محدود، بیماریوں سے نڈھال اور قید تنہائی نے اس ’آہنی خاتون‘ کو جسمانی طور پر توڑ دیا تھا، مگر ان کے حامیوں کے مطابق ان کا حوصلہ آخر تک قائم رہا۔ جیل میں ان کی صحت مسلسل بگڑتی رہی۔ جگر، دل اور گردوں کے امراض نے انہیں گھیر لیا۔ شیخ حسینہ کی حکومت نے انہیں علاج کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا، جسے بی این پی نے سیاسی انتقام قرار دیا۔ بعد میں وہ ضمانت پر رہا ہوئیں، پھر انہیں بیرونِ ملک علاج کے لیے جانے کی اجازت ملی اور 2024 حسینہ واجد کی معزولی کے بعد عدالت نے ان کے خلاف کرپشن کے بڑے مقدمات ختم کر دیے۔ سات اگست 2024 کو ڈھاکہ میں خالدہ ضیا کی جماعت بی این پی کے حامیوں کا جلسہ (اے ایف پی) ملی جلی میراث خالدہ ضیا کی میراث پیچیدہ ہے۔ ان کے حامی انہیں ’مادرِ جمہوریت‘ اور بنگلہ دیشی قوم پرستی (بنگلہ دیشی نیشنلزم) کی علامت مانتے ہیں، جنہوں نے انڈیا کے اثر و رسوخ کے مقابلے میں بنگلہ دیش کی الگ شناخت اور خودمختاری کا نعرہ بلند کیا۔ وہ دیہی بنگلہ دیش اور قدامت پسند طبقے میں بے پناہ مقبولیت رکھتی تھیں۔ دوسری جانب، ان کے ناقدین ان پر الزام لگاتے ہیں کہ انہوں نے اپنے دور میں بدعنوانی کو فروغ دیا، مذہبی انتہا پسندوں کو سیاسی دھارے میں شامل کیا اور پارلیمان کا بائیکاٹ کر کے جمہوری عمل کو کمزور کیا۔ شیخ حسینہ کے ساتھ ان کی دہائیوں پر محیط دشمنی نے بنگلہ دیش کو سیاسی عدم استحکام کا شکار رکھا۔ تاہم اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ خالدہ ضیا جدید بنگلہ دیش کی معماروں میں سے ایک تھیں۔ ایک ایسی عورت جس نے شوہر کی موت کے بعد نہ صرف ایک ٹوٹی ہوئی پارٹی کو جوڑا بلکہ تین دہائیوں تک ملک کی سب سے طاقتور سیاسی قوتوں میں سے ایک کی سربراہی کی۔ ان کی زندگی اس بات کی گواہ ہے کہ سیاست صرف پھولوں کی سیج نہیں بلکہ کانٹوں کا بستر بھی ہے، جہاں عروج کے بعد زوال اور اقتدار کے بعد قید و تنہائی اکثر مقدر بن جاتی ہے۔ خالدہ ضیا کا انتقال بنگلہ دیش کی سیاست کے ایک طویل، ہنگامہ خیز اور جذباتی باب کا خاتمہ ہے۔ تاریخ انہیں ایک ایسی لیڈر کے طور پر یاد رکھے گی جس نے انتہائی نامساعد حالات میں بھی ہار ماننے سے انکار کیا، چاہے اس کی قیمت انہیں اپنی آزادی اور صحت کی صورت میں ہی کیوں نہ چکانی پڑی۔ بنگلہ دیش بےنظیر بھٹو بیگم خالدہ ضیاء بےنظیر بھٹو کے بعد مسلم دنیا کی دوسری خاتون وزیرِ اعظم، جن کی زندگی جنوبی ایشیا کی سیاست کا اہم باب ہے۔ انڈپینڈنٹ اردو منگل, دسمبر 30, 2025 - 09:15 Main image:
29 نومبر 2025 کو ڈھاکہ میں لوگ خالدہ ضیا کی صحت کے لیے دعا کر رہے ہیں (اے ایف پی)
خواتین jw id: ZrbfQiYE type: video related nodes: تین مرتبہ بنگلہ دیش کی وزیراعظم رہنے والی خالدہ ضیا انتقال کر گئیں خالدہ ضیا کی بنگلہ دیش واپسی، انتخابات کے لیے دباؤ افغان طالبان کا انتخابات سے پہلے بنگلہ دیش کا دورہ بنگلہ دیش: طلبہ کی نئی سیاسی پارٹی کا جماعت اسلامی سے انتخابی اتحاد SEO Title: خالدہ ضیا: گھریلو خاتون سے ’آہنی خاتون‘ تک کا سفر copyright: show related homepage: Hide from Homepage