ہماری اجتماعی زندگی میں الجھاؤ، تصادم اور فوری ردِعمل ایک معمول بن چکا ہے۔ اختلافِ رائے اب مکالمہ نہیں رہا بلکہ انا کی جنگ میں ڈھل گیا ہے۔ معمولی بات پر بھڑک اٹھنا، آواز بلند کرنا، ہاتھا پائی پر آمادہ ہو جانا،گالم گلوچ اور لڑائی یہ سب ہمارے سماجی منظرنامے میں دلیری، جرأت اور مردانگی کی علامت کے طور پر پیش کیے جاتے ہیں۔ یہ رویہ محض انفرادی نفسیات کا مسئلہ نہیں بلکہ ایک پورے ثقافتی بیانیے کا نتیجہ ہے، جس کی تشکیل میں ہمارے سینیما، ڈرامے اور عوامی گفتگو نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ خاص طور پر ’اینگری ینگ مین‘ کا تصور، جو کبھی جبر اور ناانصافی کے خلاف مزاحمت کی علامت کے طور پر سامنے آیا تھا، رفتہ رفتہ ایک ایسے سانچے میں ڈھل گیا جس میں غصہ خود مقصد بن گیا ہے اور طاقت کے اظہار کو حق، اور تحمل کو کمزوری سمجھا جانے لگا ہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ہم نے برداشت، شائستگی اور خود پر قابو پانے جیسی اقدار کو پیچھے چھوڑ دیا۔ ہماری روزمرہ زندگی میں ٹریفک سے لے کر دفاتر، تعلیمی اداروں سے لے کر گھریلو گفتگو تک ہر جگہ یہی اضطراب جھلکتا ہے۔ اس پس منظر میں ایک سادہ مگر گہرا واقعہ ذہن میں آتا ہے۔ ایک فرانسیسی فلم کا منظر ہے: ایک تنگ گلی میں ایک غنڈہ اور ایک شریف آدمی آمنے سامنے آ جاتے ہیں۔ گزرنے کا راستہ ایک ہی ہے، یا تو ایک شخص پیچھے ہٹے، یا تصادم ناگزیر ہو۔ غنڈہ غرور سے کہتا ہے، ’میں نے زندگی میں کبھی کسی ذلیل کو راستہ نہیں دیا۔‘ شریف آدمی سکون سے ایک طرف ہو جاتا ہے اور کہتا ہے، ’اور میں نے ہمیشہ دیا ہے۔‘ یہ مکالمہ محض دو کرداروں کی بات نہیں، بلکہ دو تہذیبی رویّوں کی علامت ہے: ایک وہ جو طاقت کے اظہار کو وقار سمجھتا ہے، اور دوسرا وہ جو ضبطِ نفس کو برتری جانتا ہے۔ ہماری ایک استاد کا مشورہ بھی اسی دانائی کی توسیع تھا۔ وہ کہتی تھیں کہ جب زندگی میں کوئی آپ کو دھکا دے کر آگے نکلنے کی کوشش کرے تو اطمینان سے ایک طرف ہو جائیں اور مسکرا کر کہہ دیں: ’بھائی، تو لُچا، تو سب توں اُچا، تُوں لنگ جا ساڈی خیر اے۔‘ اس جملے میں کمزوری نہیں، بلکہ شعور اور خود آگاہی پوشیدہ ہے۔ یہ سمجھ کہ ہر معرکہ جیتنا ضروری نہیں، اور ہر راستہ روکنا عقل مندی نہیں۔ مزید پڑھ اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field) سوال یہ ہے کہ ہم نے یہ رویّہ کیوں کھو دیا؟ کیوں ہمارے ہاں تحمل کمزوری اور برداشت شکست سمجھی جاتی ہے؟ اس کی ایک وجہ ہمارے سماجی بیانیے کی تشکیل میں طاقت کی غیر متوازن نمائش ہے۔ ہم نے ایسے ہیروز کو سراہا جو غصے میں فیصلے کرتے ہیں، جو مکالمے کے بجائے مکوں سے بات کرتے ہیں، اور جو قانون یا ضابطے سے بالا ہو کر اپنی مرضی مسلط کرتے ہیں۔ اس بیانیے نے ایک پوری نسل کو یہ سبق دیا کہ احترام طاقت سے آتا ہے، اور خاموشی ہار ہے۔ یہ مسئلہ محض ثقافتی نہیں، شہری بھی ہے۔ شہری تہذیب کا مطلب صرف سڑکیں، عمارتیں یا ادارے نہیں ہوتے، یہ رویّوں، ترجیحات اور باہمی احترام کا نام ہے۔ ایک مہذب معاشرہ وہ ہوتا ہے جہاں اختلاف کے باوجود گفتگو جاری رہتی ہے، جہاں راستہ دینا عزت گھٹاتا نہیں بلکہ بڑھاتا ہے، اور جہاں قانون، ضابطہ اور اخلاقی اصول فرد کی انا سے بالاتر ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہم نے شہری ہونے کو محض شناختی کارڈ اور پتہ لکھوانے تک محدود کر دیا ہے، جب کہ شہری اخلاقیات کو نظرانداز کیا ہے۔ یہی رویّہ سیاست میں بھی در آیا ہے۔ سیاست، جو اصولاً مفادات کے توازن اور اختلافِ رائے کے نظم کا نام ہے، ہمارے ہاں غصے کی مستقل نمائش بن گئی ہے۔ پارلیمان ہو یا سڑک، ٹی وی سکرین ہو یا سوشل میڈیا، ہر جگہ چیخ، طعن اور تضحیک غالب ہے۔ سیاست دانوں کے لہجے عوام کے لہجوں میں منتقل ہوتے ہیں، اور یوں ایک دائرہ قائم ہو جاتا ہے جس میں عدم برداشت خود کو بار بار پیدا کرتی ہے۔ نتیجتاً معاشرت پیچھے رہ جاتی ہے اور سیاست ہر گفتگو پر حاوی ہو جاتی ہے۔ یہاں ایک بنیادی نکتہ سمجھنا ضروری ہے کہ معاشرت سیاست سے زیادہ وسیع اور گہرا دائرہ ہے۔ اگر معاشرت میں تحمل، برداشت اور احترام نہ ہو تو سیاست میں اصلاح کی امید لاحاصل رہتی ہے۔ شہری مکالمہ سیاست سے پہلے گھر، سکول، دفتر اور محلے میں شروع ہوتا ہے۔ اگر ہم وہاں اختلاف کو برداشت کرنا سیکھ لیں تو ریاستی سطح پر مکالمہ خود بخود بہتر ہو جاتا ہے۔ تحمل کا مطلب ناانصافی قبول کرنا نہیں، بلکہ ردِعمل کے انتخاب میں عقل کو جذبات پر ترجیح دینا ہے۔ برداشت کا مفہوم خاموشی نہیں، بلکہ مناسب وقت اور مناسب طریقے سے بات کرنا ہے۔ صبر کا مطلب ظلم سہنا نہیں، بلکہ طاقت کے اندھے استعمال سے انکار کرنا ہے۔ یہ وہ باریک فرق ہیں جو ہمارے اجتماعی شعور میں دھندلا گئے ہیں۔ اس تناظر میں تعلیم کا کردار فیصلہ کن ہے۔ تعلیمی ادارے اگر محض ڈگریاں بانٹنے کی فیکٹریاں بن جائیں اور کردار سازی کو نظرانداز کر دیں تو معاشرہ ذہین مگر غیر مہذب افراد سے بھر جاتا ہے۔ نصاب، تدریس اور ادارہ جاتی ثقافت میں مکالمہ، اختلافِ رائے کی تربیت اور جذباتی نظم و ضبط کو مرکزی حیثیت دینا ناگزیر ہے۔ اسی طرح میڈیا کو بھی غصے اور سنسنی کے بجائے ٹھہراؤ اور سیاق فراہم کرنا ہو گا۔ ہمیں یہ ماننا ہو گا کہ راستہ دینا ہار نہیں، اور خاموشی بزدلی نہیں۔ ہمیں یہ سیکھنا ہو گا کہ بعض اوقات پیچھے ہٹنا ہی آگے بڑھنے کا راستہ ہوتا ہے۔ سوشل میڈیا نے اس مسئلے کو مزید پیچیدہ کر دیا ہے۔ فوری ردِعمل، فوری فیصلہ اور فوری سزا۔ یہ سب اس پلیٹ فارم کی فطرت میں شامل ہیں۔ یہاں تحمل وقت مانگتا ہے، اور وقت کم ہے۔ مگر یہی وہ مقام ہے جہاں شہری ذمہ داری کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ ہر بات پر ردِعمل ضروری نہیں، ہر اشتعال کا جواب لازم نہیں، اور ہر اختلاف دشمنی نہیں ہوتا۔ اگر ہم واقعی اپنے مسائل کم کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی ترجیحات بدلنا ہوں گی۔ ہمیں یہ ماننا ہو گا کہ راستہ دینا ہار نہیں، اور خاموشی بزدلی نہیں۔ ہمیں یہ سیکھنا ہو گا کہ بعض اوقات پیچھے ہٹنا ہی آگے بڑھنے کا راستہ ہوتا ہے۔ یہ سبق فرد سے شروع ہو کر معاشرے تک پھیلتا ہے، اور یہی شہری تہذیب کی بنیاد بنتا ہے۔ ہمیں سیاست سے زیادہ معاشرت اور شہریت پر بامعنی مکالمے کی ضرورت ہے۔ وہ مکالمہ جس میں غصے کی جگہ دلیل ہو، انا کی جگہ شعور ہو، اور طاقت کی جگہ اخلاقیات ہوں۔ اگر ہم نے یہ راستہ اختیار نہ کیا تو ہماری زندگی تنگ گلیوں میں الجھتی رہے گی، جہاں ہر شخص دوسرے سے ٹکرا کر گزرنا چاہتا ہے۔ اور اگر ہم نے یہ راستہ اپنا لیا تو شاید ہم بھی سکون سے ایک طرف ہو کر کہہ سکیں گے: ’میں ہمیشہ راستہ دیتا آیا ہوں‘ اور یہی بات ہمیں واقعی بلند کر دے گی۔ (ڈاکٹر راجہ قیصر احمد قائداعظم یونیورسٹی کے سکول آف پالیٹیکس اینڈ انٹرنیشنل ریلیشنز میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں)۔ نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ سوشل میڈیا سماجی تعلقات سیاست سوشل میڈیا نے عدم برداشت کو مزید پیچیدہ کر دیا ہے، فوری ردِعمل، فوری فیصلہ اور فوری سزا۔ یہیں پر شہری کی ذمہ داری آتی ہے کہ ہر بات پر ردِعمل ضروری نہیں۔ ڈاکٹر راجہ قیصر احمد بدھ, دسمبر 31, 2025 - 06:30 Main image:
دس اکتوبر 2025 کو لاہور میں پولیس کی مظاہرین پر آنسو گیس کی شیلنگ (اے ایف پی)
نقطۂ نظر type: news related nodes: کیا پاکستان میں مثبت تبدیلی ممکن ہے؟ ایک واقعہ، پوری ریاست ناکام: کیا ہم ’منفی نفسیات‘ کے قیدی ہیں؟ نیا سماجی معاہدہ ناگزیر ہو چکا ہے پاکستانی سیاست میں ’واٹ اباؤٹ ازم‘ SEO Title: عدم برداشت کا بڑھتا ہوا کلچر copyright: show related homepage: Hide from Homepage