صومالی لینڈ کو آزاد ریاست تسلیم کرنے کے اچانک اعلان کے ساتھ ہی اسرائیل نے پہلے سے سلگتے ہوئے قرنِ افریقہ میں جلتی پر مزید تیل چھڑک دیا ہے۔ یہ علاقہ تین دہائیوں سے زائد عرصے سے بین الاقوامی شناخت کا خواہاں تھا اور اب تل ابیب وہ پہلا دارالحکومت بن گیا ہے، جس نے صومالی لینڈ کو ایک آزاد اور خودمختار جمہوریہ کے طور پر تسلیم کیا ہے۔ اسرائیلی اقدام کو عرب اور بین الاقوامی سطح پر مسترد کیا گیا اور اس کی مذمت کی گئی، لیکن اس نے دیگر ممکنہ اعترافات کے حوالے سے سوالات کے دروازے کھول دیے ہیں، جو صومالی لینڈ کی صومالیہ سے علیحدگی کو ’امرِ واقع‘ بنا سکتے ہیں۔ صومالیہ 1991 سے علیحدگی پسند منصوبوں کو ختم کرنے اور استحکام حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے، لیکن دہشت گردی کے خطرات اور سکیورٹی چیلنجز کی وجہ سے، جن کے نتیجے میں معاشی مشکلات پیدا ہوئیں، یہ کوششیں بے سود رہی ہیں۔ حالیہ برسوں کے دوران قرنِ افریقہ میں تنازع کے کئی عوامل ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ ایتیھوپیا کی جانب سے سمندری راستے کے حصول پر اصرار نے اریٹیریا کے ساتھ لفظی جھڑپوں کو جنم دیا، جس کے بعد کچھ تجزیوں میں دونوں کے درمیان دوبارہ جنگ کی پیش گوئی کی گئی، حالانکہ ان دونوں ممالک کی حکومتوں نے ایتیھوپیا میں ٹائیگرے قوم پرست قوتوں کے خلاف اتحاد قائم کیا تھا۔ پیچیدہ منظرنامہ منظرنامے کی پیچیدگی میں اس وقت اضافہ ہوا جب ادیس ابابا نے جنوری 2024 میں صومالی لینڈ کے ساتھ مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط کیے، جس کے تحت خلیج عدن کے ساحل پر ایک بندرگاہ کے بدلے ایتیھوپیا کی جانب سے خطے کی آزادی کو تسلیم کیا جانا تھا۔ تاہم اس پر موغادیشو کی وفاقی حکومت نے شدید ردعمل ظاہر کیا اور مصر جیسے اپنے اتحادیوں سے رابطہ کیا۔ مصر نے صومالیہ کے ساتھ فوجی معاہدہ کیا اور دو طرفہ بنیادوں پر اور امن فوج کے حصے کے طور پر اپنی فوج بھیجی۔ قاہرہ نے اسمارا کے ساتھ بھی تعلقات مضبوط کیے، جبکہ پس منظر میں دریائے نیل پر ’سد النہضہ‘ نامی ڈیم کے معاملے پر مصر ایتیھوپیا تنازع موجود تھا، جو 14 سال کے مذاکرات کے باوجود حل نہیں ہو سکا۔ مزید پڑھ اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field) ترکی نے اپنے دو دوست ممالک، صومالیہ اور ایتیھوپیا کے درمیان مشترکہ بنیاد تلاش کرنے کے لیے مداخلت کی۔ صدر رجب طیب اردوغان کی مداخلت کے نتیجے میں گذشتہ سال دسمبر میں دونوں ممالک کے درمیان ایک معاہدہ ہوا جس کے تحت ادیس ابابا اور ہرجیسا (صومالی لینڈ کا دارالحکومت) کے درمیان معاہدے کو معطل کرنا تھا، اور اس کے بدلے وفاقی حکومت کی رضامندی سے ایتیھوپیا کو سمندر تک رسائی دی جانی تھی، تاہم اب تک ایسا نہیں ہو سکا۔ اس مساوات میں نیا فریق اس بار افریقی براعظم کے باہر سے آیا ہے، جب تل ابیب نے صومالی لینڈ کی آزادی کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا۔ اسرائیلی وزیر خارجہ جدعون ساعر کے مطابق دونوں فریقین کے درمیان گذشتہ ایک سال سے رابطے جاری تھے اور اسرائیل نے اسے ’ابراہیمی معاہدوں‘ کی ایک کڑی قرار دیا۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ اس صومالی لینڈ نے 2020 میں اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان تعلقات کے قیام کا خیرمقدم کرنے والوں میں سبقت لی تھی، جو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے دور میں طے پانے والا پہلا ابراہیمی معاہدہ تھا۔ اسرائیلی اعلان کے بعد مصر، صومالیہ، جبوتی اور ترکی نے وزرائے خارجہ کی سطح پر مشاورت کی تاکہ صومالی لینڈ کی آزادی کو تسلیم کرنے کے اقدام کو مسترد کرنے اور اس کی مذمت کی تصدیق کی جا سکے اور صومالیہ کے ریاستی اداروں کی حمایت کی جا سکے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اسرائیل کا فیصلہ ’خطے کے امن و استحکام کے لیے ایک خطرناک خطرہ ہے۔‘ سعودی عرب سمیت بہت سے عرب اور اسلامی ممالک نے بھی اس اقدام کی مذمت کی، اس کے علاوہ افریقی یونین اور عرب لیگ نے بھی مذمتی بیانات جاری کیے۔ ان موقفوں کو 21 عرب اور اسلامی ممالک کے مشترکہ بیان سے تقویت ملی، جس میں اسلامی تعاون تنظیم بھی شامل تھی۔ اس بیان میں ’قرنِ افریقہ اور بحیرہ احمر کے خطے میں امن و سلامتی پر اس غیر معمولی اقدام کے خطرناک اثرات اور بین الاقوامی امن و سلامتی پر اس کے سنگین نتائج‘ سے خبردار کیا گیا۔ علیحدگی پسند رجحانات قرنِ افریقہ کی سلامتی پر ان خطرناک اثرات میں بعض دیگر قومیتوں اور خطوں میں علیحدگی پسند رجحانات کی حوصلہ افزائی شامل ہے، جس سے ان کی آزادی کے مطالبات میں اضافہ ہوگا۔ چاہے وہ صومالیہ میں جوبالینڈ اور پنٹ لینڈ ہوں، یا ایتیھوپیا میں اورومو، امہارا اور ٹائیگرے جیسے گروہ۔ مرکز برائے مسارات فار سٹریٹجک سٹڈیز کی ڈائریکٹر اور افریقی امور کی محقق ایمان الشعراوی کے مطابق یہ قدم قرنِ افریقہ اور مجموعی طور پر افریقہ میں استحکام اور سلامتی کو متاثر کرے گا جو کہ نسلی اور قومی گروہوں سے بھرا ہوا ہے۔ اسرائیل اور صومالی لینڈ کے درمیان باہمی اعتراف سے پہلے برسوں تک رابطے رہے ہیں۔ 2010 میں اسرائیلی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے کہا تھا کہ ’اگر درخواست کی گئی تو‘ اسرائیل صومالی لینڈ کی آزادی کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہے۔ ہرجیسا نے کئی مواقع پر ادیس ابابا کو بھی راغب کرنے کی کوشش کی، اور اسی سلسلے میں اسرائیل اور متحدہ عرب امارات کے درمیان پہلے ابراہیمی معاہدے کا خیرمقدم بھی کیا۔ اکتوبر 2024 میں بعض رپورٹس میں عندیہ دیا گیا کہ صومالی لینڈ نے ایک اسرائیلی فوجی اڈہ قائم کرنے کی تجویز دی تھی جہاں سے حوثیوں کو نشانہ بنا سکے (مرکز الاہرام برائے سیاسی و تزویراتی مطالعات کے محقق احمد عسکر کے تحقیقی مقالے کے مطابق)۔ گذشتہ اپریل میں خطے کے وزیر خارجہ عبدالرحمن آدم (عیسیٰ کاید) نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے لیے صومالی لینڈ کی آمادگی کا اظہار کیا تھا۔ فلسطینیوں کی بے دخلی کا معاملہ تو یہ تعلقات اب کیوں منظرِ عام پر آئے؟ محقق ایمان الشعراوی اس کی وجہ غزہ کی پٹی سے فلسطینیوں کی بے دخلی کے منصوبے کو قرار دیتی ہیں۔ صومالی لینڈ ان علاقوں میں شامل ہے جہاں فلسطینیوں کو منتقل کرنے کی تجویز ہے۔ اس کے علاوہ تل ابیب بحیرہ احمر میں حوثیوں کا گھیراؤ اور مقابلہ کرنے کے لیے مضبوط موجودگی چاہتا ہے، نیز مصر پر دباؤ ڈالنے کی کوشش بھی ہے کیونکہ مصر موغادیشو کی حمایت کرتا ہے، افریقہ میں علیحدگی پسند اکائیوں کو مسترد کرتا ہے اور اس بات کا خواہاں ہے کہ بحیرہ احمر صرف اس کے ساحلی ممالک کے لیے ہی رہے۔ خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ نے گذشتہ مارچ میں رپورٹ دی تھی کہ امریکہ اور اسرائیل نے دیگر افریقی ممالک کے علاوہ صومالی لینڈ کے حکام کو غزہ کی پٹی سے فلسطینیوں کو اپنی سرزمین پر آباد کرنے کی پیشکش کی تھی، تاہم ہرجیسا نے ایسی کوئی پیشکش موصول ہونے کی تردید کی تھی۔ اسرائیل کی جانب سے تسلیم کیے جانے اور فلسطینیوں کی بےدخلی کے منصوبے کے درمیان تعلق اب صرف میڈیا رپورٹس تک محدود نہیں رہا، کیونکہ 21 عرب اور اسلامی ممالک نے اپنے مشترکہ بیان میں ’اس اقدام اور فلسطینی عوام کو ان کی سرزمین سے باہر منتقل کرنے کے کسی بھی منصوبے کے درمیان تعلق کو یکسر اور قطعی طور پر مسترد کرنے‘ کا اعلان کیا۔ افریقی امور کے لیے سابق مصری اسسٹنٹ وزیر خارجہ، سفیر منیٰ عمر نے ’انڈپینڈنٹ عربیہ‘ کو بتایا کہ غزہ کے باشندوں کی صومالی لینڈ میں کوئی بھی ممکنہ منتقلی کشیدہ سکیورٹی حالات میں جبری بےدخلی کے مترادف ہو گی۔ انہوں نے زور دیا کہ عرب ممالک اس اقدام کو مسترد کریں گے۔ سفیر منیٰ عمر نے نشاندہی کی کہ صومالی لینڈ ابراہیمی معاہدوں میں شامل ہو کر فوائد حاصل کرنا چاہتا ہے، لیکن وہ اسرائیل کے ساتھ کام کر رہا ہے جس کے نوآبادیاتی مفادات ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مصر بین الاقوامی قوانین کے مطابق کام کر رہا ہے اور اسرائیل کے اقدام کا مقابلہ کرنے کے لیے سفارت کاری اور بین الاقوامی حمایت پر انحصار کرتا ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ بحیرہ احمر کے داخلی راستے پر اسرائیل کی موجودگی مصری اور عرب قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔ 15 مئی 2018 کو ہرجیسا میں صومالی لینڈ کے جھنڈے کے رنگ لگائے لوگ صومالی لینڈ کی آزادی کا جشن منا رہے ہیں (اے ایف پی) انہوں نے مزید کہا کہ مصر، سعودی عرب، ترکی اور جبوتی کے اقدامات کا مقصد بین الاقوامی قانون اور افریقی یونین کے قواعد کی کسی بھی خلاف ورزی کا مقابلہ کرنا ہے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ ایتیھوپیا صومالی لینڈ کو سرکاری طور پر تسلیم کیے بغیر بحیرہ احمر پر اس کی بندرگاہوں میں سہولیات حاصل کر کے صورت حال کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کر سکتا ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ افریقہ میں علیحدگی پسند تحریکوں کی کسی بھی قسم کی حمایت مزید ٹوٹ پھوٹ کا باعث بنے گی اور اس بات پر زور دیا کہ سب سے زیادہ خطرہ ایتیھوپیا کو ہے کیونکہ وہاں متعدد اقلیتیں موجود ہیں۔ ایتیھوپیا مستفید افریقی یونین کی جانب سے صومالی لینڈ کو ایک آزاد اکائی کے طور پر تسلیم کرنے کے کسی بھی اقدام کو مسترد کرنے اور صومالیہ کی وحدت اور خودمختاری کے عزم کے باوجود، محقق ایمان الشعراوی نے ’انڈپینڈنٹ عربیہ‘ کو بتایا کہ اسرائیلی اعتراف خطے میں ممکنہ افریقی اعترافات کے لیے ’نبض ٹٹولنے‘ کے مترادف ہو سکتا ہے۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ افریقہ میں اتحاد مفادات اور دباؤ کی وجہ سے تیزی سے بدلتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیلی اعتراف سے سب سے زیادہ فائدہ ایتیھوپیا کو ہو گا کیونکہ وہ بحیرہ احمر پر موجودگی کے لیے سرتوڑ کوششیں کر رہا ہے اور وہ موغادیشو کے ساتھ مذاکرات میں اسے دباؤ کے کارڈ کے طور پر استعمال کر سکتا ہے۔ وہ بحیرہ احمر پر راستہ مانگ سکتا ہے یا پھر صومالی لینڈ کے ساتھ معاہدے کو عارضی طور پر معطل کرنے کے بعد اسے تسلیم کرنے کا اعلان کر سکتا ہے۔ اسرائیلی اعتراف کے بعد کے آپشنز کے بارے میں شعراوی کا خیال ہے کہ بحیرہ احمر اور خلیج عدن کے ساحلی عرب اور افریقی ممالک کی کونسل کو ایک اجلاس منعقد کرنا چاہیے تاکہ متفقہ موقف اختیار کیا جا سکے اور بحیرہ احمر پر کسی بھی اعتراف یا کسی بھی اکائی کی موجودگی کو مسترد کیا جا سکے۔ تاہم انہوں نے اعتراف کیا کہ ’حقیقت پسندانہ طور پر اسرائیلی اقدام کے سامنے کھڑا ہونا ممکن نہیں‘ اور دوسرا آپشن موجودہ سکیورٹی اور اقتصادی چیلنجز کے تناظر میں مقادیشو کی حمایت کرنا ہے۔ مصر بحیرہ احمر کے انتظام میں کسی بھی ایسے ملک کی شرکت کو مسترد کرتا ہے جو اس کے ساحل پر واقع نہ ہو۔ مصری وزیر خارجہ بدر عبدالعاطی نے چند ہفتے قبل اعلان کیا تھا کہ یہ موقف قرنِ افریقہ کے خشکی میں گھرے ممالک، ’خاص طور پر ایتیھوپیا‘ کے لیے ہے۔ صومالی لینڈ کا خطہ ایک اہم سٹریٹیجک مقام رکھتا ہے جو اس کی سیاسی اہمیت میں اضافہ کرتا ہے، کیونکہ اس کا خلیج عدن پر 740 کلومیٹر طویل ساحل ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں بحر ہند بحیرہ احمر سے ملتا ہے۔ 1991 میں یکطرفہ آزادی کے اعلان کے بعد سے کسی بھی ملک کی جانب سے صومالی لینڈ کو تسلیم نہ کیے جانے کے باوجود، بربرہ بندرگاہ (خطے کا سب سے اہم مقام) نے اپنی سٹریٹیجک اہمیت اور دنیا کے ساتھ معاملات برقرار رکھے ہیں۔ عرب امارات کی ملکیتی کمپنی ’ڈی پی ورلڈ‘ نے مارچ 2017 سے بربرہ بندرگاہ کا انتظام سنبھال رکھا ہے اور اس کے پاس اس کی 51 فیصد ملکیت ہے۔ گذشتہ سال ڈی پی ورلڈ نے صومالی لینڈ اور ایتیھوپیا کی حکومتوں کے ساتھ معاہدہ کیا، جس میں ایتیھوپیا کو بندرگاہ کا 19 فیصد حصہ ملا۔ یہ بندرگاہ خشکی میں گھرے ایتیھوپیا کے لیے تجارتی دروازہ ہے جو جبوتی کی بندرگاہ پر انحصار کم کرنا چاہتا ہے جس پر اسے سالانہ تقریباً دو ارب ڈالر خرچ کرنا پڑتے ہیں۔ صومالی لینڈ کی کرنسی (پبلک ڈومین) کیا ایتیھوپیا اسرائیل کی پیروی کرے گا؟ نیشنل سینٹر فار مڈل ایسٹ سٹڈیز کے افریقی امور کے ماہر حسین البحیری کا خیال ہے کہ اسرائیل کا صومالی لینڈ کو تسلیم کرنا اس پالیسی کی عکاسی کرتا ہے، جس کا مقصد قرنِ افریقہ اور بحیرہ احمر میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانا اور بحیرہ احمر میں قدم جمانا ہے۔ یہ عالمی تجارتی گزرگاہوں جیسے باب المندب اور وہاں سے نہر سوئز کے قریب ہے اور اسرائیل اس کا جواز بحیرہ احمر میں حوثی حملوں سے اپنے اور واشنگٹن کے مفادات کے تحفظ کو بتاتا ہے۔ البحیری نے ’انڈپینڈنٹ عربیہ‘ کو مزید بتایا کہ ایتیھوپیا افریقی یونین کے اندر سب سے زیادہ اثر و رسوخ اور وزن رکھنے والا ملک ہے اور امکان ہے کہ وہ اسرائیل کی پیروی کرتے ہوئے صومالی لینڈ کو تسلیم کر لے۔ ان کا کہنا تھا کہ صومالی لینڈ کے ساتھ دستخط شدہ مفاہمت کی یادداشت کو فعال کرنے کے منظرنامے کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ ایتیھوپیا نے یکم جنوری 2024 کو علیحدگی پسند صومالی لینڈ کے ساتھ مفاہمت کی ایک یادداشت پر دستخط کیے تھے جس کے تحت ادیس ابابا کو 50 سال کے لیے خطے کی 20 کلومیٹر طویل سمندری پٹی استعمال کرنے کا حق حاصل ہو گا۔ اس کے بدلے میں ’ایتیھوپیا سرکاری طور پر جمہوریہ صومالی لینڈ کو تسلیم کرے گا،‘ جیسا کہ اس خطے کے رہنما موسیٰ بیہی عابدی نے اعلان کیا تھا۔ لیکن ادیس ابابا حکومت نے خطے کو تسلیم کرنے کے اپنے ارادے کا اعلان نہیں کیا اور صرف یہ اشارہ دیا کہ وہ ’صومالی لینڈ کی بین الاقوامی شناخت حاصل کرنے کی کوششوں کے حوالے سے موقف اختیار کرنے کے لیے گہرائی سے جائزہ لے گی۔‘ صومالی لینڈ کے حوالے سے امریکی موقف پر البحیری نے کہا کہ ممکن ہے واشنگٹن خطے کی آزادی کو تسلیم کرنے کی طرف جائے، کیونکہ رپبلکن پارٹی کے اراکین میں پہلے سے اس کی حمایت پائی جاتی ہے، جو اسے صدارتی اور پارلیمانی انتخابات کے کامیاب انعقاد اور وہاں ’الشباب‘ کا اثر و رسوخ نہ ہونے کی وجہ سے سراہتے ہیں۔ اس کی گونج امریکی کانگریس میں بھی سنائی دیتی ہے۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ تل ابیب نے اعلان کیا ہے کہ یہ اعتراف ان ابراہیمی معاہدوں کے فریم ورک کے تحت ہے جن کی ٹرمپ انتظامیہ حمایت کرتی ہے۔ مشترکہ اعتراف کے چند گھنٹوں بعد ٹرمپ نے اخبار ’نیویارک پوسٹ‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ صومالی لینڈ کو تسلیم کرنے کے لیے اسرائیل کے ساتھ مشاورت کے ذریعے فیصلے کا ’جائزہ‘ لینے کی ضرورت ہے، لیکن انہوں نے علیحدگی کے اصول کو مسترد نہیں کیا۔ گذشتہ نومبر میں افریقہ میں امریکی کمانڈ (AFRICOM) کے کمانڈر جنرل ڈاگون اینڈرسن نے صومالی لینڈ کا دورہ کیا تھا، جس سے یہ توقعات پیدا ہوئیں کہ علیحدگی پسند خطہ امریکہ کے ساتھ بحیرہ احمر کے دہانے کے قریب امریکی بحری اڈے کے قیام کے حوالے سے کسی معاہدے پر پہنچ سکتا ہے، لیکن ٹرمپ نے اپنے بیانات میں کہا کہ صومالی لینڈ کی یہ پیشکش ’زیرِ غور‘ ہے۔ برطانوی اخبار ’فنانشل ٹائمز‘ نے ایک سینئر امریکی اہلکار (جن کا نام ظاہر نہیں کیا گیا) کے حوالے سے بتایا تھا کہ ٹرمپ انتظامیہ نے سرکاری اعتراف کے حوالے سے صومالی لینڈ کے ساتھ مذاکرات شروع کر دیے ہیں۔ البحیری نے اس بات پر زور دیا کہ صومالی لینڈ میں ’القاعدہ ،‘ ’الشباب‘ اور ’داعش‘ کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں سے صومالیہ کو مسلسل اقتصادی اور سکیورٹی چیلنجز کا سامنا ہے۔ وفاقی حکومت صرف یہ کر سکتی ہے کہ وہ ترکیہ، مصر اور جبوتی جیسے اپنے اتحادیوں کے ساتھ سفارتی تحرک کرے اور اسرائیل اور ایتیھوپیا کے اقدامات کا مقابلہ کرنے کے لیے مصر، صومالیہ اور اریٹیریا کے درمیان سہ فریقی اتحاد کو فعال کرے۔ جبوتی کا نقصان اسرائیل، مصر اور ایتیھوپیا جیسے بڑے ممالک کی کشمکش کے علاوہ جبوتی بھی خطے کی علیحدگی کو روکنے میں ایک فریق کے طور پر ابھرتا ہے۔ محقق احمد عسکر نے مرکز الاہرام برائے سیاسی و تزویراتی مطالعات میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں اشارہ کیا کہ جبوتی اقتصادی فوائد میں صومالی لینڈ کی بندرگاہوں کے مقابلے کے خطرے کو سمجھتا ہے، خاص طور پر ایتیھوپیا کے لیے جو اپنی 95 فیصد سے زیادہ غیر ملکی تجارت کے لیے جبوتی کی بندرگاہوں پر انحصار کرتا ہے۔ اس لیے یہ چھوٹا ملک ایک اقتصادی ماڈل کے طور پر اپنی حیثیت برقرار رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ جبوتی کو قرنِ افریقہ میں غیر ملکی طاقتوں کے مرکز کے طور پر اپنی حیثیت برقرار رکھنے کی ضرورت ہے، کیونکہ وہ 6 بڑے ممالک (امریکہ، چین، جاپان، فرانس، اٹلی اور سپین) کے غیر ملکی اڈوں کی میزبانی کرتا ہے۔ جاپانی ایجنسی فار انٹرنیشنل کوآپریشن کے تحقیقی ادارے ’جائیکا‘ کے 2020 کے اعداد و شمار کے مطابق، وہ اپنی قومی آمدنی کا تقریباً 18 فیصد (12.9 کروڑ ڈالر) ان اڈوں کے کرائے سے حاصل کرتا ہے۔ (بشکریہ انڈپینڈنٹ عربیہ) صومالیہ افریقہ غزہ اسرائیل ایتھوپیا مصر حوثی اسرائیل کا صومالی لینڈ کو تسلیم کرنا محض سفارتی تعلقات کا معاملہ نہیں ہے، اس کے پیچھے بحیرہ احمر پر کنٹرول، حوثیوں کا گھیراؤ اور شاید فلسطینیوں کی منتقلی کا خفیہ منصوبہ ہے۔ انڈپینڈنٹ عربیہ بدھ, دسمبر 31, 2025 - 11:00 Main image:
30 دسمبر 2025 کو صومالیہ کے دارالحکومت موغادیشو میں اسرائیل کی جانب سے صومالی لینڈ کو تسلیم کرنے کے فیصلے کے خلاف احتجاج (اے ایف پی)
دنیا type: news related nodes: صومالی لینڈ خودمختاری، فلسطینیوں کی بے دخلی نامنظور: پاکستان پاکستان+20 ممالک کا صومالی لینڈ کو تسلیم کرنے کا اسرائیلی قدم مسترد امریکی فوج کے انخلا کے فیصلے سے صومالیہ میں مزید انتشار کا خدشہ صومالی قزاقوں سے 19 پاکستانی شہریوں کو بازیاب کرایا: انڈین بحریہ SEO Title: بحیرہ احمر پر کنٹرول کی جنگ: اسرائیل، صومالی لینڈ اور ایتھوپیا کا نیا گٹھ جوڑ copyright: Display mode: meta header middle show related homepage: Hide from Homepage